ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جولائی 2003 |
اكستان |
|
ہے کہ تمہیں قوة و شوکت اور غلبہ عطا کرکے قوة نافذہ عطا کردی ہے سوتم ان قوانین شرعیہ کا بغیر روک ٹو ک کے نفاذ کر سکتے ہو لہٰذا لیظہرہ علی الدینکلہ کا اعلی مقصد پور اہو گیا..... ... رضاء دین یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ یہ قوانین ِشرعیہ ابدی ہیں اب قیامت تک یہی قوانین چلیں گے یہی دین ِاسلام قائم و دائم رہے گا کوئی اوردین نہ اس کی جگہ لے سکتا ہے نہ اس کی جگہ چل سکتا ہے ۔ فقاہت صدیق و فاروق ،اہلِ اسلام کے لیے یہ بہت بڑا اعزاز ہے اتنا بڑا اعزاز کہ ایک یہودی حضرت عمر سے آکر کہتا ہے اے امیر المومنین تمہاری کتاب (قرآن مجید ) میں ایک آیت ہے جس کو تم پڑھتے رہتے ہو اگر وہ آیت ہمارے اوپر یعنی یہود پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عیدبناتے پھر عید مناتے اور منا کر دکھاتے ...... امیر المؤمنین نے پوچھا وہ کون سی آیت ہے ؟ اس نے الیوم اکملت لکم سے دینا تک مذکورہ بالا آیت تلاوت کی ۔امیرالمؤمنین حضرت عمرِ فاروق نے فرمایا اے یہودی میں اس دن کو جا نتا ہوں جس پر یہ آیت نازل ہوئی اور وہ جگہ بھی مجھے یاد ہے جس میں یہ آیت اُتری۔ رسول اللہ ۖ عرفات کے میدان میں تھے کہ وقوف عرفہ کے دوران جمعہ کے دن عصر کے بعد یہ آیت نازل ہوئی.......حضرت عمر فاروق کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں اس آیت کے نزول کی جگہ اور وقت یا د ہے لیکن ہمیں دین میں اپنی طرف سے اختراعات اور محدثات الامور سے منع کیا گیا ہے اس لیے ہم نے اس زمان ومکان کو عید نہیں بنایا ،نیز ہمارا مذہب محض تہوار منانے کے لیے نہیں بلکہ عملی طور پر اپنانے کے لیے ہے ۔اس عظیم موقع پر ایک عجیب اور حیران کن صورت یہ پیش آئی ہے کہ تمام اصحاب رسول عزوجاہ او ر فخرو مباہات کا یہ خوش کن پیغام اور مژدہ جانفزا سن کر خو ش ہیں اور آثار مسرت و شادمانی ان کے چہروں پر نمایاں ہیں....... اس پُر مسرت خبر کے سنتے ہی ان کے منور چہروں کے نور میں اور اُن کے نکھرے چہروں کے نکھار میں غیر معمولی اضافہ ہو جا تا ہے لیکن دوسری طرف صدیق و فاروق ہیںکہ ان کے گلاب جیسے کھلے اور نکھرے خوب صورت چہرے مرجھا جاتے ہیں...... دُکھ وغم اور ہجر و فراق کے آنسواُن کی آنکھوں سے رواں ہیں ....... صحابہ کرام صدیق اکبر سے پوچھتے ہیں اے نبوت کے راز دار ،اے رسول اللہ ۖ کے یارِ غار اور اے رفیقِ سفر، رہبرِہجرت ! اس عظیم خبر پر یہ پریشانی کیسی ! یہ دکھ اور غم کیسا؟ حضرت صدیق اکبر ایک کشتہء محبت غم کشیدہ عاشق زار کی طرح آبدیدہ ہوکر لڑکھڑ اتی زبان سے کہتے ہیں ھذہ الآیة تدل علی قرب وفات رسول اللّٰہ ۖ فانہ لیس بعد الکمال الاالزوال یہ آیت اشارہ کر رہی ہے کہ رسول اللہ ۖ کی وفات کا وقت قریب ہے کیونکہ دین کا مل ہو چکا اور ہر کمالِ رازوال است : امام رازی تفسیر کبیر میں فرماتے ہیں کہ حضرت صدیق اکبر کا اس آیت سے فراق نبوت کو سمجھ لینا دلیل ہے حضرت صدیق کے کمال علم و فہم پر، پھر عمر فاروق سے دریافت کرتے ہیں اے فاروق اعظم ،اے اسلام کے عزوفخر! ذرا بتا تو سہی کہ آپ اس عظیم خوشخبری پر سہمے سہمے ، بجھے بجھے کیوں ہیں؟ آبدیدہ اور گریاںچشم کیوں ہیں ؟ خود