ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2003 |
اكستان |
|
حقیقتِ حج ذیل میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سیّد حسین احمد مدنی قدس سرہ کی وہ تقریر درج کی جارہی ہے جو حضر ت ممدوح نے سفرِ حجاز میں تشریف لے جاتے ہوئے محمدی جہاز میں مسافر انِ حجاز کے سامنے فرمائی تھی ۔ (ادارہ) الحمد للّٰہ وسلام علیٰ عبادہ الذین اصطفی آپ حضرات کی خدمت میں حاضر ہونا میں فضول اس وجہ سے سمجھتا تھا کہ بڑے بڑے حضرات موجود ہیں اور ان کی تقاریر برابر ہوتی رہی ہیں ۔ میں نہ اعلیٰ درجے کی تقریر کر سکتا ہوں اور نہ اس میدان کا ماہرہوںاور اب میں کمزور بھی ہو گیا ہوں،مگرمجھ کو باربار حکم دیا گیا اس لیے کچھ روشنی عبادتِ حج کے متعلق ڈالنا چاہتا ہوں ۔ میرے بزرگو ! تمام عالم میں ہر شخص یہی چاہتا ہے کہ آزاد رہے ۔دوسرے کا تابعدار ہو کر نہ رہے ۔ کسی کی تابعداری اس وقت ہوتی ہے جبکہ تابعداری پر مجبور ی ہو ۔ تابعداری کے تین اسباب ہیں : (١) ایک یہ کہ نفع کی اُمّید ہو۔ بادشاہوںاو رمالکوں کی تابعداری اسی وجہ سے کی جاتی ہے کہ وہ نفع پہنچائیں گے اور حاجت رفع کریں گے ۔ (٢) دوسرا سبب نقصان کا اندیشہ ہے یعنی کسی شخص سے نقصان پہنچنے کا ڈر ہو کہ مارے گا پیٹے گا ،اگر اس کی تابعداری نہ کی تو اس سے نقصان پہنچے گا۔ (٣) تیسرا سبب تابعداری کامحبت ہے ۔کسی سے محبت ہو تو اس کی محبت کی وجہ سے اس کی تابعداری کی جاتی ہے محبوب اگرچہ کمزور ہو، اس سے نفع کی اُمّید ہو نہ نقصان کا اندیشہ ۔دیکھوماں باپ اولاد کی تابعداری کرتے ہیں ۔بچے جو مطالبہ کرتے ہیں ماں باپ ا س کو پورا کرتے ہیں ۔صرف محبت کی وجہ سے ماں باپ بچے کی تابعداری کرتے ہیں اس کی ہر بات کو مانتے ہیں اور اس کی پرورش کرتے ہیں حالانکہ ان کو بچہ سے نفع کی کوئی اُمّید نہیں نہ نقصان کا اندیشہ ہے۔ محبت کا تقاضا ہے کہ انسان محبوب کی تابعداری کرے۔ شاعر کہتاہے اِنَّ الْمُحِبَّ لِمَنْ یُّحِبُّ مُطِیْع تم اللہ کی محبت کا دعوٰی کرتے ہو او ر اس کے حکم کے خلاف کرتے ہو یہ محبت کے قانون کے خلاف ہے ۔ عاشق کی تو نشانی یہ ہے