ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2003 |
اكستان |
|
معاشرتی اصلاح کے متعلق چند زریں ہدایات ( افادات : حضرت اقدس مولانا قاری سید صدیق احمد صاحب باندوی ) لڑکیوں کی پرورش کرنے او ر اُن پر خرچ کرنے کی فضیلت : فرمایا آج کل لڑکیوں کے پیدا ہوجانے کو عیب سمجھا جاتا ہے ۔لڑکاپیدا ہونے سے تو خوشی ہوتی ہے لڑکی پیدا ہونے سے خوشی نہیں ہوتی ۔کفارِمکہ کا بھی یہی حال تھا کہ لڑکی کی پیدائش کو بہت برا سمجھتے تھے، لڑکیوں کو زندہ دفن کردیتے تھے ۔یہی حال آج اُمت کا ہو رہا ہے کہ لڑکی کی پید ائش کو منحوس سمجھتے ہیں ۔حالانکہ لڑکیوں پر خرچ کرنے میں جتنا ثواب ملتا ہے لڑکوں پرخرچ کرنے میں اتنا نہیں ملتا ۔ایک حدیث میں ہے کہ ایک صحابی نے حضور ۖ سے پوچھا کہ میرے مال کا سب سے اچھامصرف کیا ہے۔ حضور ۖ نے ارشاد فرمایا کہ تیری وہ لڑکی جو تیری طرف لوٹا دی جائے ۔لڑکی کے باپ کے پاس لوٹنے کی یہی شکل ہوتی ہے کہ یا تو وہ بیوہ ہو جائے یا مطلقہ ہو جائے ۔یااس کاشوہر اس کو اچھی طرح رکھتا نہ ہو ایسی حالت میں بچاری کہاں جائے ،اپنے میکہ ہی تو جائے گی ۔اپنے ماںباپ ،بھائی کے پاس ہی تو رہے گی یہاں نہ جائے گی تو پھر کہاں جائے گی ۔اپنے ماں باپ اور بھائی بھی اس کے نہ ہوں گے تو کون ہو گا۔ بعض لوگوں کو دیکھا کہ لڑکی کی شاد ی ہو جانے کے بعد پھر اس کے ساتھ لڑکی جیسا سلوک نہیں کرتے ۔اس کے ساتھ اجنبیوں جیسا برتاؤکرتے ہیں اچھے خاصے پڑھے لکھے دیندار لوگوں تک کو اس میں مبتلادیکھا ہے ۔ارے اس بیچاری کی اگربھائی کی بیوی سے نہیں بنتی تو ماںباپ اور بھائی تو ہیں ان کو تو خیال کرنا چاہیے ۔تعجب ہے کہ وہ بھی نہیں خیال کرتے۔ لڑکی کی اہمیت : فرمایا آج کل لڑکی پیدا ہونے کوبہت معیوب سمجھتے ہیں ۔لڑکا پیدا ہونے کی تو خوشی ہوتی ہے لڑکی پیدا ہونے کی خوشی نہیں ہوتی ۔لڑکا پیدا ہوتوعقیقہ میں دو بکرے ذبح کردیں گے دعوت کریں گے خوشیاں منائیں گے لڑکی پیدا ہو تو عقیقہ ہی نہ کریں گے۔ حالانکہ ایک حدیث شریف میں آیا ہے کہ جس کے لڑکی پید ا ہوئی اور اس نے اس کواچھی طرح پالا ، تربیت کی، شادی کی اس کے لیے جنت ہے۔ ایک حدیث شریف میںآیا ہے کہ وہ عورت بڑی برکت والی ہے جس کے پہلے لڑکی پیدا ہو۔ راقم الحروف نے عرض کیا کہ حضرت معمولات نبوی میں یہ حدیث منقول ہے حضرت نے فرمایا کہ او ر بھی جگہ ہے مفسرین نے بھی نقل کی ہے۔