ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2003 |
اكستان |
|
دور آیا تو والد ماجد حضرت حبیب اللہ صاحب قدس سرہ نے فرمایا کہ آپ سب لوگ ہندوستان واپس چلے جائیں میں تویہاں آخری وقت گزارنے اور اس زمین پاک میں دفن ہونے کے لیے ہجرت کرکے آیا ہوں ۔ آپ لوگوں نے حج کر لیا ہے تو واپس چلے جائیں۔لیکن والد صاحب کو اس پیرانہ سالی میں گھر کا کوئی فرد تنہا چھوڑ کر جانے کے لیے تیار نہیں ہوا ۔ چنانچہ متواتر چند ماہ امتحان میں اس طرح گزرے کہ ایک وقت میں تھوڑی سی مونگ کی دال میسر آتی تھی جسے پکا کر گھر کے سب آدمی تھوڑی تھو ڑی سی پی لیتے او ر خدا کا شکر کرتے ۔اہل خانہ کی تعداد تیرہ تھی مگر اس حالت کی کسی کو خبر تک نہ ہوئی۔ ١٣٢٠ ھ کے بعد سے نہ معلوم کتنے سال مولانا سیّد حسین احمد مدنی رحمہ اللہ کا مسجد نبوی میں درس اسی فاقہ میں صبح سے شام تک جاری رہتا تھا۔تفسیر وحدیث کی بڑی کتابوں کے تقریبًا ١٥ سبق روزانہ پڑھاتے تھے اس لیے بعض دفعہ اسباق کا سلسلہ عشاء کے بعد تک رہتا ۔مطالعہ کی عادت تھی ،بلا مطالعہ سبق نہیں پڑھاتے تھے اس لیے دن رات میںصرف ساڑھے تین گھنٹے سونے کا مو قع ملتا تھا ۔ہفتہ میں ایک دن چھٹی ہوتی تھی تو چھ گھنٹے سولیتے تھے۔اسباق میںپوری جدو جہد اس لیے بھی تھی کہ حضرت شیخ الہند رحمة اللہ علیہ نے رخصت کرتے وقت وہاں پڑھاتے رہنے کی تاکید فرمائی تھی۔ ١٣١٨ھ میں حضرت مولانا رشید احمد صاحب گنگوہی رحمة اللہ علیہ نے حضرت مدنی رحمة اللہ علیہ کو گنگوہ بلایا کیونکہ سلوک (اور بزبانِ عرف عام تصوف)کاآخری سبق ''ان تعبداللّٰہ کا نک تراہ '' جوحدیث ِصحیح میںوارد ہے،اپنی زیر نگرانی کرانا تھا ۔اس کے بعد آپ کو چاروں سلسلوں کی (چشتی ،قادری ، نقشبندی ،سہروردی ) اجازت وخلافت عطا ء کی، اس کے دو تین دن بعدحضرت نے حضرت اقدس گنگوہی رحمة اللہ علیہما سے عرض کیا کہ سلسلۂ نقشبندیہ کا سلوک بھی طے کرنا چاہتاہوں ، تو فرمایا کہ جو تعلیم میں نے دی وہ سب کی بالکل آخری تعلیم ہے ۔یہاں پرتمام سلاسل مل جاتے ہیں ، اسی کی مشق کرو، اسی میںجدوجہد کرکے پیر مرید سے بڑھ جائے یا مریدپیر سے بڑھ جائے ''۔ اس کے بعد حج کازمانہ آیا توآپ پھر مدینہ منورہ حاضر ہوگئے ۔ ملخصا ًاز نقشِ حیات ) عجیب بات ہے کہ اس مراقبۂ عظیمہ تک دنیا کے تمام مذاہب کے خاص خاص تارک الدنیا جواپنے فرقوں کے ہیڈشمار ہوتے ہیں ریاضتیں کرتے کرتے پہنچ جاتے ہیں مثلاً بدھ مذہب والے ، ہندو سادھوجو بہت ہی اونچے مقام پر پہنچے ہوں وغیرہ۔یہ لوگ آخرمیں توحید کے قائل ہوجا تے ہیںایسے لوگ مرنے پر دفن کیے جاتے ہیں۔ہندوؤں میں عابدوں کی چار قسموں کے نام ہیںجنہیں وہ بھی دفن کرتے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام کی ناتمام تعلیم ان کے یہاں کچھ محفوظ رہ گئی ہے جس میں تدفین اوریہ دھیان باقی ہے لیکن جیسا کہ صراطِ مستقیم کے آخر میں سلوک ثانی کے باب میں حضرت شاہ اسمٰعیل شہید رحمة اللہ علیہ نے تحریر فرمایا ہے کہ''یہ لوگ یہیں رُک جاتے ہیں ۔'' ان کے پاس اُن قدیم انبیا ء کی ناتمام تعلیمات ملتی ہیں جو اقوام ِ عالم میں مبعوث ہوتے رہے۔ باقی احکام اس وقت تک تھے ہی نہیں اور اگر کچھ اخلاقیات کی تعلیم