ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2003 |
اكستان |
|
نے اثنا ء گفتگو حضرت مولانا السیّد حسین احمدا لمدنی رحمہ اللہ کا ذکرِ خیر کیاانھوںنے بھی بہت ادب سے ذکر ِخیر کیا۔ میں نے دریافت کیا کہ آپ انھیں جانتے ہیں ،انھوں نے فرمایاکہ خوب جانتاہوں میں نے ان سے حدیث کی کتابیں پڑھی ہیں ۔ میں نے دریافت کیا کہ کہاں؟ تو انھوںنے فرمایا کہ مدینہ منورہ میں ۔ جس روز وہ مسلم مسجد میں تشریف لائے ان کے ساتھ جماعت اسلامی کے لوگ تھے اس دن غالباً وہ ان کے ہی مہمان تھے ۔ '' شیخ العرب والعجم'' کہنے کی وجہ : بہر حال اس رُوحانیت اور علم و تقوٰی کے ساتھ جب آپ کا علمی فیض پھیلا تو عرب کے دور درا زممالک تک حلقۂ تلامذہ پہنچا اور جذباتِ جہاد بھی تلامذہ میںمنتقل ہوئے اس لیے آ پ کو'' شیخ العرب والعجم ''بھی بکثرت کہتے ہیں۔اسیران مالٹا میں تحریر ہے آپ کی شہرت عرب سے تجاوز کرکے دیگر ممالک تک پہنچ چکی تھی اور'' شیخ الحرم'' کے خطاب سے آپ مشہور ہوگئے تھے۔( ص٨٧) تذکرة الرشید میں مولانا عاشق الہی صاحب میرٹھی نے جن کا تعلق جمعیة سے کبھی بھی نہیں رہا ،تحریر فرمایا ہے مولانا حسین احمد کا درس بحمداللہ حرم نبوی میں بہت عروج پر ہے اور عزت وجاہ بھی حق تعالیٰ نے وہ عطا فرمایا ہے کہ ہندی علماء کو کیا معنی یمنی اور شامی بلکہ مدنی علماء کوبھی وہ بات حاصل نہیں۔ذٰلک فضل اللّٰہ یؤتیہ من یشاء ۔(اسیرانِ مالٹا ص٨٧ بحوالہ تذکرة الرشید ص١٥٩)۔ ایک جگہ حضرت مدنی رحمہ اللہ نے تحریر فرمایا ہے : میں ہندوستان سے باہر تقریبًا سترہ سال رہا ہوں ۔عرب ،شام ، فلسطین ، افریقہ ، مصر، مالٹا وغیرہ میں رہنا ہوا۔ہر ملک کے باشندوں سے ملنا جلنا اُٹھنا بیٹھنا ہوا ۔جرمن، آسٹرین ، بلگیر ین، انگریز، فرانسیسی ،آسٹریلین ،امریکی، روسی، چینی، جاپانی، ترکی، عربی وغیرہ وغیرہ مسلم اور غیر مسلم اورغیر مسلموں کے ساتھ سالہا سال تک ملنا جلنا نشست و برخاست کی نوبت آئی ۔اگر یہ لوگ عربی ترکی یافارسی یا اردو سے واقف ہوتے تھے تو بلا ترجمان ورنہ بذریعہ ترجمان گفتگوئیں ہوتی تھیں۔سیاسی مسائل اور مذہبی امور زیرِ بحث رہتے تھے۔ (مکتوب نمبر ٤٢ مکتوبات شیخ الاسلام ص١٢٦و ص ١٢٧) حضرت اور علوم قاسمی : آپ کی تحریر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو حضرت نانوتوی قدس سرہ العزیز سے خاص قسم کی علمی مناسبت تھی۔تحریر فرماتے ہیں : ''حضرت مولانا محمد قاسم صاحب رحمة اللہ علیہ کی تصانیف میں ایسے ایسے حِکَم اور علمی مضامین ملتے تھے کہ تمام مطوّلات و کتب قدیمہ میں ہاتھ نہیں آتے تھے ۔ان سے طبیعت کو بہت زیادہ اطمینان اور شرح صدر ہوتا