ماہنامہ انوار مدینہ لاہور فروری 2003 |
اكستان |
|
و ر ایک مسئلہ نہیں بتا سکے ۔اس وقت طالب علم جتنا احساس کمتری کا شکار ہوگا وہی جان سکتا ہے اور مدرسہ بدنام ہو ا لگ۔ ثانیاً : دینی تعلیم اور عصری تعلیم دونوں کی طرف طالب علم کا میلان بر قرار رکھنا ناممکن ہے۔ بلکہ کسی ایک جانب زیادہ میلان ضرور ہوگا ۔اس لیے اگر دینی علوم کی طرف جھکا ئو زیادہ رہا تو عصری مضامین کو شامل کرنے سے کیا فائدہ اور اگر عصری علوم کی طرف جھکا ؤ زیادہ بڑھا تو پھر دینی تعلیم اس کی نظر میں بے وزن ہوکر رہ جائے گی۔اور مدرسہ میںداخلہ لینے کا مقصد ہی فوت ہوجائیگا او ر تجربہ و مشاہدہ سے ثابت ہے کہ عصر ی علوم ہی کی طرف میلان بڑھتا ہے اور دینی علوم پر گرفت بہت کمزور ہو جاتی ہے پھر نتیجةً غیر شعوری طورپر علوم دینیہ سے بے بہرہ ہو کر مدارس کے لیے بدنامی کا باعث ہوتے ہیں۔ ثالثاً : یہ کہ مدارس کا کوئی مستقل ذریعہ تحصیل زر نہیں ہوتااورنہ ہی کوئی سرکاری تعاون شامل حال ہوتا ہے۔بلکہ سو فیصد قوم کے تعاون اور چندہ کی بدولت چل رہے ہیں ۔اور لوگ علوم دینیہ کی ترویج و اشاعت کی خاطر اپنا قیمتی سرمایہ ان مدارس کو عطا کرتے ہیں ۔اگر کسی بھی درجہ میں علوم عصریہ کی طرف قدم اُٹھے گا تو معاونین کے لیے بجا طورپر اعتراضات کے لیے دروازے کھلیں گے کہ ہم تو دین تعلیم کے لیے ان مولویوں کو پیسہ دیتے ہیں اور یہ عصری تعلیم حاصل کرکے دنیا طلبی کے پیچھے لگ رہے ہیں پھر عین ممکن ہے کہ عوام اپنا دست تعاون کھینچ لیں اور مدارس کے لیے مالی بحران کا قضیہ درپیش ہو جائے اور رہی سہی تعلیمی خدمات بھی دائو پہ لگ جائیں۔ رابعًا : ہاں اگر کوئی طالب علم بہت ہائی پاور کی ذہانت کا مالک ہو اور دونوں لائن میں پوری استعداد پیدا کر سکتا ہو تو خوشی سے کرلے لیکن تعلیمی دو ر ختم ہو جانے کے بعد دونوں لائن کی مصروفیات کو باقی رکھنا اور ان کے تقاضوں کو پورا کرنا بہت مشکل ہے ۔ یقینًا کسی ایک لائن کا ہو کر رہ جائے گاپھر دوسری لائن اختیار کرنے سے کیا حاصل رہا۔ خامسًا : دینی اور عصری تعلیم اپنے نفسیاتی اثرات و نتائج کے اعتبار سے آپس میں بالکل مختلف اور متضاد ہیں ۔ عصری علوم سے طلباء میں ظاہری اور باطنی آزادی جنم پاتی ہے ۔ظاہری تو یہ ہے کہ لباس اپنی مرضی او رمن پسند کا ہونا چاہیے۔ سرپر انگریز ی بال ہوں،پاجامہ ایڑی سے نیچے جا رہا ہو ،ڈاڑھی فرنچ کٹ ہو یا منڈی ہوئی ہو،راستہ پر کھڑے ہو کر کھا پی لیں اور شاہ گذر گاہ پر کھڑے کھڑے پیشاب کرلیں ۔کوئی حرج نہیںبلکہ یہ سب وقت کے ارتقائی تقاضے اور اعلیٰ ترین تہذیب جدید کی علامتیںسمجھیں جاتی ہیں۔ باطنی یہ کہ طالب علم خود پسندی، عجب و تکبر اور بڑائی میں مبتلا ہو کر عاجزی وانکساری جیسی صفات محمودہ سے یکسر خالی ہو جاتا ہے ۔لازماً دوسروں کو ذلت و حقارت آمیز نظروں سے دیکھنے لگتا ہے ۔ناخواندہ اور پست طبقہ کے لوگوں میں اُٹھنا بیٹھنا، ساتھ میں کھاناپینا ،ان کی شادی بیاہ میں شرکت کرنا اپنے لیے عیب سمجھتے ہیں حتی کہ اپنے والدین کی خدمت