تراجم ابواب کے تعلق سے اس رسالے میں بے انتہا نفیس مباحث آگئے ہیں ، بطور خاص آغاز میں ۱۵؍اصول بیان ہوئے ہیں جوتراجم کے حل میں رہنما اور معین ثابت ہوتے ہیں ، محدث عصر علامہ یوسف بنوریؒ کے بقول:
’’ شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی نے فرمایا کہ بخاری کے تراجم کا قرض ابھی امت کے ذمہ باقی ہے، اسے آج تک کسی نے ادا نہیں کیا، میں کہتا ہوں کہ اگر حضرت شیخ الہند کی کتاب ’’ الابواب والتراجم‘‘ مکمل ہوگئی ہوتی تو یہ قرض ادا ہوگیا ہوتا،لیکن افسوس وہ پوری نہیں ہوئی۔‘‘ (مقدمہ لامع الدراری)
حضرت مولانا سید اصغر حسین صاحبؒ فرما تے ہیں :
’’حضرت مولانا کو علوم حدیث میں کمال حاصل ہونے کے ساتھ ہی اصح الکتب بعد کتاب اللہ صحیح بخاری سے ایک مخصوص مناسبت تھی، اور حضرت مولانا اس مخزن علوم حدیث کے غوامض و دقائق، اسرار و حقائق سے باحسن الوجوہ واقف اور ماہر تھے، اور اس کے درس میں آپ کو خاص حظ حاصل تھا، اورمناسبۃ التراجم بالابواب میں شروح و حواشی کے علاوہ اپنی نفیس و گراں مایہ تحقیقات بھی بیان فرمایا کرتے تھے، نظر بندیٔ مالٹا میں ترقی درجات و رفعت مقامات کے ساتھ وحی الٰہی کا ترجمہ ختم کرتے ہوئے علوم قرآن پر مزید غور کرنے سے مناسبت با لحدیث کو اضعاف مضاعف ترقی ہوئی اورعلوم بخاری گویا منکشف ہوکر داعیۂ غیبی بخاری شریف کے متعلق کسی تحریرکا محرک ہوا اور حضرت نے تراجم بخاری کے متعلق متفرق اوقات میں بطر زیادداشت کچھ تحریر فرمانے کا ارادہ کیا، اور ایسے زمانہ میں کہ آپ کے