ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2017 |
اكستان |
|
ہے اور ضرور اس میں کوئی خاص نفع ہے جس کو ہر شخص نہیں سمجھ سکتا۔ تعجب کی بات ہے کہ محمد بن زکریا طبیب پتھروںاور بوٹیوں کی جو خاصیتیں بتاتے وہ تو بلاچون و چرا اور بے سوچے سمجھے صحیح مان لی جائیں اور سیّد البشر محمد بن عبداللہ علیہ افضل الصلٰوة والسلام نور نبوت اور وحی ربانی سے اعمال وافعال کی جو خاصیتیں بیان فرمائیں اُن کو نہ مانا جائے اور خلافِ عقل بتایا جائے۔ مسلمانو ! یقین جانو کہ طبیب روحانی جو کچھ بھی عطا کرے ضرور اُس میں نفع ہو گا اگرچہ اس کی مصلحت تمہاری عقل اور علم میں نہ آسکے۔ ٭ تیسری وجہ : یہ ہے کہ انسان جانوروں کی طرح آزاد بیکار نہیں پیدا کیا گیا بلکہ اس کو اشرف المخلوقات اور شریعت کا پابند بنایا گیا ہے اس لیے تم کو مناسب ہے کہ جو کام کرو سنت کے موافق کرو تاکہ نفس محکوم اور مطیع بنارہے اور فرشتہ خصلت بن جائو اور یوں سمجھو کہ بندگی بے چارگی کا نام ہے اس لیے بندہ کو چاہیے کہ جو حرکت بھی کرے وہ اتباعِ رسول اللہ ۖ کی نیت اور پیغمبر کے حکم سے کرے تاکہ آثارِ بندگی ہر وقت ظاہر ہوتے رہیں ،ہر دم ریاضت و اطاعت کا اجر ملتا رہے، پابندی وہ چیز ہے کہ اگر فرضًا کوئی شخص اپنا تمام اختیار کسی جانور کے ہاتھ میں دے دے تب بھی یہ شخص اس سے اچھی حالت میںہوگا جو سراپا اپنی خواہش پر چلتا ہے۔ یہ فائدہ اخیرہ حکم شرعی کی ہر وضع سے حاصل ہوسکتا ہے خواہ کسی طرح حکم مقرر ہو جائے کیونکہ اس کا جو مقصود اصلی ہے کہ ایک خاص طرز کی پابندی ہو جو ہر طور پر حاصل رہے تو شرائع مختلفہ کے احکام بدل جانے پر بھی یہ فائدہ خاصہ محفوظ رہا بخلاف اوّل اور دوسرے فائدہ کے کہ حکمت اور خاصیت ایک متعین چیز ہے اور وہ اختلاف شرائع سے بدل نہیں سکتی پس اگر تم تینوں وجہوں پر آگہی حاصل کر لو گے تو تمام حرکات میں اتباعِ سنت کی ضرورت تم کو واضح ہو جائے گی۔عبادات میں اتباعِ سنت بلاعذر چھوڑنا کفرِ خفی یا حماقت ِجلی ہے : جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے وہ اُمور عادیہ(جن کی عادت ہو)میں اتباعِ سنت کی ترغیب کے لیے بیان کیا ہے اور جن اعمال کو عبادات سے تعلق ہے اور ان کے اجروثواب بیان کیا گیا ہے اُن میں بلاعذر اتباع چھوڑ دیں تو سوائے کفرِ خفی (پوشیدہ)یاحماقت ِجلی کے اور کوئی وجہ ہی سمجھ میں نہیں آتی مثلاً