ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2017 |
اكستان |
|
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : ''دنیا میں لوگوں کے سردار سخی لوگ ہیں اور آخرت میں لوگوں کے سردار متقی لوگ ہیں۔'' ١ اور حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ ''میں نے صفت ِسخاوت پر غور کیا تو اس کی اصل یہ معلوم ہوئی کہ اللہ تعالیٰ سے یہ خوش گمانی رکھی جائے کہ وہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہ کرے گا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (وَمَا اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَیْ ئٍ فَھُوَ یُخْلِفُہ وَھُوَ خَیْرُالرَّازِقِیْنَ )''اور جو کچھ خر چ کرتے ہو وہ اُس کا عوض دیتا ہے اور وہ بہتر ہے روزی دینے والا'' اس کے بر خلاف بخل اور کنجوسی کی اصل یہ معلوم ہوئی کہ اس کا مرتکب نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ سے یہ بدگمانی رکھتا ہے کہ وہ اپنا وعدہ پورا نہ کرے گا۔ ٢آنحضرت ۖ کی سخاوت : اللہ تعالیٰ نے ہمارے آقا سرورِ کائنات فخر دو عالم ۖ کو جہاں دیگر کمالات اور اوصاف ِ حمیدہ سے سر فراز فرمایا تھا وہیں صفت ِ سخاوت میں بھی آپ اعلیٰ ترین مقام پر فائز تھے، حضرات ِ صحابہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ۖ سب سے زیادہ جود و سخا والے تھے اور رمضان المبارک میں تو تیز رفتار ہوا کی طرح آپ سے صفت ِ سخاوت کاظہور ہوتا تھا۔ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیںکہ آنحضرت ۖ نے کبھی کسی سائل کو محروم نہیں فرمایا ٣ آپ کی سخاوت مبارکہ کا کچھ انداز درجِ ذیل واقعات سے لگایا جا سکتا ہے۔اپنی چادر سائل کو دے دی : (١) حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک عورت آنحضرت ۖ کی خدمت میں ایک چادر لے کر حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! یہ چادر میں نے اپنے ہاتھ سے بُنی ہے اور اسے میں آپ کی خدمت میں لائی ہوں تاکہ آپ اسے زیب ِتن فرمالیں۔ ------------------------------١ الترغیب و الترہیب للیافعی ص٨٤ ٢ ایضاً ٥ ٨ ٣ بخاری شریف ج ٢ ص ٨٩٢