ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2017 |
اكستان |
|
ایک ایمان والے کودُنیاکی ٹیپ ٹاپ اور نیرنگیوں میں مشغول ہوکراپنے اصلی مستقراوروطن کو نہ بھولنا چاہیے بلکہ اُس کی یادسے ہمیشہ اپنے دل کومعموررکھناچاہیے۔منزل کیاہے ؟ ہمیں یہ یادرکھناچاہیے کہ ہماری اصل منزل موت کے بعدشروع ہونے والی زندگی ہے ،ہم سب اُسی منزل تک پہنچنے کے لیے رخت ِسفرباندھے ہوئے ہیں،ہماری مثال بالکل اُن مسافروں کی طرح ہے جوجہازکے اِنتظار میںا ئیرپو رٹ کے چائے خانوں میں بیٹھے ہوئے مختلف طرح کے مشروبات وماکولات سے لطف اندوزہورہے ہوتے ہیں کہ یکایک اعلان ہوتاہے کہ :''دُبئی جانے والاجہازپروازکے لیے تیارہے جن لوگوں کودُبئی جاناہے وہ فوراًجہازکارُخ کریں ''دُبئی جانے والے مسافراِعلان سُنتے ہی کھانا پینا چھوڑکراُٹھ کھڑے ہوتے ہیں اوراپنے ہاتھ میں سامان لے کرفوراًجہازکی طرف روانہ ہوجاتے ہیں پھر اعلان ہوتاہے ''ملیشیاجانے والے مسافرین متوجہ ہوں ''کوالالمپورجانے والاجہازاُڑان بھرنے کے لیے تیارہے آپ لوگ فلاں گیٹ سے جہاز میںداخل ہوجائیں، اعلان سُنتے ہی ملیشیاجانے والے لوگ بھی کرسیاں چھوڑدیتے ہیں اورسامان لے کرجہازکارُخ کرتے ہیں، اِسی طرح چوبیس گھنٹہ وقفہ وقفہ سے مختلف سمت میں جانے والے جہازوں کی پروازکااعلان ہوتارہتاہے اورمسافرسوارہوکراپنی منزل کارُخ کرتے ہیں۔ بالکل یہی حال ہماراہے ہم دُنیامیں کھابھی رہے ہیں پی بھی رہے ہیں خوشیاں بھی منارہے ہیں اورنہ جانے کیاکیاکررہے ہیں ؟ لیکن جب ہماری باری آئے گی اورفرشتہ پروانۂ اَجل لے کر آئے گاتوہمیں دُنیاکے اِن تمام جھمیلوں کوخیربادکہہ کراُس آخری سفرپرروانہ ہوناپڑے گا یہ سفرزندگی کے کس لمحہ میں اورکس موڑپرپیش آجائے کسی کونہیں معلوم،اگرہمارا سامانِ سفرتیارہے جیساکہ ائیرپورٹ پربیٹھنے والے مسافرین کا ہوتا ہے تویہ زادآخرت میں ہمارے کام آئے گاورنہ توخالی ہاتھ اوربغیرتیاری کے منزل پرپہنچناہوگا اوریہی چیزباعث ِرُسوائی اورعاربن جائے گی۔اِس موقع پرشیخ محمودوراق کایہ شعرذکر کرناموزوں معلوم ہوتاہے :