ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2017 |
اكستان |
|
عبادتوں کے مختلف اقسام ہونے میں حکمت : اور ان کو مختلف اقسام کا اس لیے بنایاگیا ہے تاکہ ہر وقت ایک طرز کی عبادت میں مشغول رہنے سے دل گھبرا نہ جائے اور نیز اگر ہر وقت ایک ہی عبادت کی جائے گی تو طبیعت اس کی خوگر(عادی) ہوجائے گی اور عادت ہو جانے کی وجہ سے قلبی اثر ان کا جاتا رہے گا اس لیے ہر عبادت کے لیے جداوقت تجویز کرلینا ہی ضروری ہے البتہ جو لوگ فنا اور مستغرق(غرق)ہو جائیں اُن کو تربیت و تقسیم کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اس مرتبہ میں پہنچ کر ایک ہی عبادت رہ جاتی ہے اور ہر وقت ذکر الٰہی میں مشغولی ہوتی ہے مگر یہ درجہ ایسا نہیں ہے کہ ہر شخص اس کوحاصل کر سکے اس لیے تمہیں اوقات منضبط کرنے کی نہایت ضرورت ہے کہ فلاں وقت سے فلاں وقت تک یہ عبادت اور اس گھنٹہ سے اس گھنٹہ تک یہ عبادت اور دن کو یہ اور رات کو یہ البتہ اگر علم دین پڑھتے پڑھاتے ہو یا کسی جگہ کے حاکم ہواور رعایا کی حفاظت میں مشغول ہوتو دن بھر اس میں مشغول رہنا دوسری عبادتوں سے بہتر ہے کیونکہ علم دین ہی کی بدولت حکم الٰہی کی تعظیم حاصل ہوتی ہے اور جو نفع اس تعلیم یا مخلوق کی حفاظت و نگہبانی سے لوگوں کو پہنچتا ہے وہ اصل دین ہے۔عیالدار شخص اور عالم اور حاکم کے لیے عبادت : اسی طرح عیالدار آدمی کو محنت مزدوری کرنا اور حلال معاش سے بال بچوں اور متعلقین کا پیٹ بھرنا بھی عبادت بدنی سے افضل ہے مگر ان حالتوں میں بھی ذکر الٰہی سے علیحدگی مت اختیار کرو بلکہ جس طرح کسی حسینہ معشوقہ کا عاشق اپنے معشوق کے سوا جس کام میں بھی مشغول ہوتا ہے بحالت ِمجبوری صرف ہاتھ پائوں سے مشغول ہوتا ہے اور دل ہر وقت معشوقہ ہی میں پڑا رہتا ہے اس طرح تم بھی جس کام میں چاہے مشغول رہو اور اعضائے بدن سے اُس کو انجام دو مگر دل کو اللہ تعالیٰ ہی کے خیال میں مصروف رکھو۔ (باقی صفحہ ٣٧ )