ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2017 |
اكستان |
|
ابن آدم : خدا وندا تو رب العالمین ہے تجھے میں کیسے پانی پلا سکتا تھا ؟ رب العالمین : میرے فلاں بندے نے تجھ سے پانی مانگا تھا اگر تو اُسے پانی پلاتا تو مجھے وہیں اُس کے پاس پاتا۔ ١مساوات اور بھائی چارہ کا تقاضا اور مطالبہ : (١) جب سب انسان ایک ماں باپ کی اولاد ایک خدا کا کنبہ اور ایک بدن کے اعضاء ہیں تو یہ نہیں ہو سکتا کہ کسی انسان کو قابلِ پرستش مانا جائے اُس کے سامنے اس طرح ڈندوت کریں یا گردن جھکائیں یا اِس طرح کمر ٹیڑھی کریں جیسے خدا کے سامنے کی جاتی ہے (لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ ) ٢ (٢) نہ یہ ہو سکتا ہے کہ اس(بندے) کے حکم یا طور طریق اور اُس کے طرزو انداز کو مذہب اور دھرم کا جزوبنالیں ۔ دین اور دھرم اللہ کا ہے اُسی کا حکم دین کا حکم بن سکتا ہے یا اُس کا جو دین کے مالک (اللہ تعالیٰ) کی طرف سے دین سکھانے کا ذمہ دار بنایا گیا ہو، کیونکہ اُس کا بتانا خدا کا بتانا ہوگا وہ صرف ایلچی ہوگا اصل حکم خدا کا حکم ہوگا۔ (٣) یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ایک شخص یا خاندان کو انسانوں کی گردنوں کا مالک مان لیں اُس کا حکم قانون بن جائے اُس کے خلاف نہ داد ہو سکے نہ فریاد، یعنی جب ہر انسان بھائی بھائی اور انسان ہونے میں برابر کا شریک ہے تو کسی انسان یا انسانوں کے کسی خاندان کو دوسرے انسانوں کا مالک اور بادشاہ نہیں مانا جا سکتا، نہ حکومت کو نہ ملکی قیادت کو کسی ایک خاندان کے ساتھ اس طرح جوڑا جا سکتا ہے کہ باپ کے بعد اُس کا بیٹا راجہ اور اُس کی راج گدی کا مالک بن جائے، یہ چیز انسانی برادری کے لیے موت کا پیغام ہے۔ اگر ہم کسی کی رعایا ہیں تو اُس کی برابری اور مساوات کا دعوی نہیں کر سکتے اس لیے اسلام اس کو برداشت نہیں کرتا کہ کسی کو شہنشاہ کہا جائے، آنحضرت ۖ کا ارشاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں سب سے زیادہ نفرت انگیز بات یہ ہے کہ کسی کو مَلِکُ الْاَمْلَاکْ (شہنشاہ) کہا جائے ٣ ------------------------------١ مسلم شریف بحوالہ مشکوة شریف ١ سورہ آلِ عمران : ٧ ٢ بخاری شریف ص ٩١٦