ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2017 |
اكستان |
|
مال اور سرمایہ آپ کو ان کی طرف جاذب ہوا، تاریخی واقعات نہایت صفائی سے اس امر پر روشنی ڈال رہے ہیں۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کے کمالات اور اخلاق دیکھ کر گرویدہ ہوگئیں اور خود ہی نکاح کی خواہش کی اور بغیر کسی قسم کے ناجائز تعلقات اور کارروائیوں کے بالکل مشروع اور معتبر طریقہ پر باقاعدہ نکاح ہوا اور پھر انہوں نے جو اپنا مال اور سرمایہ خدمت ِ اقدس میں پیش کیا وہ بھی بلا طلب اور بغیر خواہش نبوی تھا (علیہ السلام)۔ جس سے خود حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو سعادت ِدارین حاصل ہوئی وہ آخر دم تک آپ کی نہایت مطیع اور فرماں بردار شکر گزار رہیں اور سب سے پہلے اسلام لائیں اس لیے اس امر میں دنیا طلبی کا متعصبانہ الزام لگانا بالکل بے سروپا بہتان ہے جس پر جنابِ رسول اللہ ۖ کی زندگانی کی کیفیتیں اور آپ کا مال و زر کا آخر دم تک لٹاتے رہنا ایک پیسہ بھی جمع نہ کرنا بلکہ باوجود تمام ملک ِ عرب کے محکوم اور مملوک ہونے کے غلہ کی قرض داری کی حالت میں وفات کرنا ایک بین دلیل اس امر کی ہے کہ آپ کو کبھی بھی دنیا طلبی نے اپنے پھندوں میں نہیں پھنسایا آنحضرت ۖ کی قولی اور عملی حالتیں آفتاب سے زیادہ تیز تر اور صاف روشنی ڈال رہی ہیں کہ اس مقدس اور معصوم ہستی کے دل میں دنیا کی مچھر کے پر کے برابر بھی وقعت نہ تھی بلکہ اُلٹی اس سے سخت نفرت تھی۔دوسرا نکاح بھی بیوہ سے : حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد آنحضرت ۖ نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا وہ بھی بیوہ تھیں اورسَن رسیدہ ،شہوت پرستی اور اس عمر کا کیا تعلق۔ایک شبہ کا ازالہ : شاید بعض سادہ لوحوں کو یہ خیال ہو کہ یہ تقلیل ازواج اور ایک عورت پر اکتفا کرنے کی نوبت محض افلاس اور فقرِ مالی کی وجہ سے تھی یا اس بناء پر کہ لوگ لڑکیاں نہیں دیتے تھے مگر یہ خیال بالکل غلط ہے نبوت کے بعد مکہ معظمہ میں رؤسا قریش نے نہایت زور سے آپ کو اپنی عمدہ سے عمدہ لڑکیاں پیش کیں اور کہا کہ اگر آپ کا مطلب بادشاہت ہے تو ہم آپ کو بادشاہ بنانے اور تسلیم کرنے کے لیے تیار ہیں اور اگر خزانہ مطلوب ہے تو جس قدر چاہو ہم خزانہ دینے کے لیے تیار ہیں اور اگر لڑکیاں مطلوب ہیں تو