ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2017 |
اكستان |
|
(٢ ) راستہ کی رُکاوٹوں کو دُور کرنا : دین کا ایک بہت بڑا شعبہ یہ ہے کہ اگر کسی جگہ دین پر عمل کرنے میں کوئی رُکاوٹ آرہی ہو تو ایک جماعت اُن رُکاوٹوں کو دُور کرنے کے لیے سر ہتھیلی پر رکھ کر مردانہ وار میدان میں آجائے اور اسلام کی سر بلندی کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرے، اِس شعبہ کا نام ''جہاد'' ہے جس کو حضورِ اکرم ۖ نے ''اسلام کا سب سے چوٹی کا عمل'' قرار دیا ہے ذُرْوَةُ سَنَامِہِ الْجِہَادُ اور اس خدمت پر قرآن و سنت میں جس قدر عظیم الشان ثواب کا وعدہ کیا گیا ہے اس میں کوئی اور عمل اس کا ہم پلّہ اور شریک نہیں ہے، محض جذبات میں آکر جہاد کے متعلق وعدوں کو کسی اور عمل پر منطبق نہیں کیا جاسکتا۔ تاہم شرعی جہاد کے کچھ شرائط و آداب ہیں اِس کا حکم کب جاری ہوتا ہے اور کہاں کس طرح کا جہاد مفید ہے ؟ اِس بارے میں معتبر علماء سے معلومات حاصل کرنی چاہئیں، یہاں تو اس طرف توجہ دلانی ہے کہ دین پر عمل میں پیش آمدہ رُکاوٹوں کو دُور کرنے پر بھی ہر زمانہ میں متواتر محنتیں ہوتی رہنا ضروری ہیں ورنہ ہم مغلوب ہوتے چلے جائیں گے اور دُشمن اس طرح حاوی ہوتا چلاجائے گا کہ ہم بعد میں ہاتھ پیر ہلانے کے قابل بھی نہ رہیں گے لہٰذا مستقل بیدار اور تیار رہنے کی ضرورت ہے، ہندوستان جیسے غیر مسلم ملک میں جمعیة علماء جیسی ملی تنظیموں کا مقصدِقیام بھی یہی ہے کہ دین و مذہب پر عمل کرنے میں جو رُکاوٹیں آئیں اُنہیں دُور کیا جائے، بلا شبہ یہ بھی ایک بڑی دینی خدمت ہے تاکہ مسلمان عافیت کے ساتھ اپنے مذہبی اُمور انجام دے سکیں۔(٣) باطل عقائد و نظریات کی تردید : اسی طرح ایک بہت ہی ضروری شعبہ یہ ہے کہ دین کے نام پر جب دین کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی سازشیں سامنے آئیں تو ایک جماعت ان سے سینہ سپر ہوکر احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا کام انجام دے، بفضلہ تعالیٰ آنحضرت ۖ کی پیش گوئی کے مطابق قیامت تک ایسی مستعد جماعت اُمت میں برابر موجود رہے گی، ایک حدیث میں آنحضرت ۖ نے اِرشاد فرمایا''میری اُمت میں