ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2017 |
اكستان |
|
تو کیا اُس کی بات منظور نہیں کرتے مگر افسوس کہ نبی و رسول کوئی روحانی علاج فرمائیں اور اس کی مناسبت اور خاصیت نہ بتلائیں تو اس کو منظور نہیں کرتے، اِس کا سبب سوائے اس کے اور کیا ہے کہ نجومی اور طبیب چونکہ موجودہ زندگی کے متعلق علاج بتارہے ہیں اور اس زندگی کے ساتھ تم کو محبت ہے لہٰذا آنے والی مصیبت یا مرض کے فکر میں اس کی وجہ اور مناسبت پوچھنے کا ہوش نہیں رہتا بلکہ دس برس بعد آنے والی مصیبت کا آج ہی سے فکرو انتظام شروع ہو جاتا ہے حالانکہ وہ محض موہوم اور ایسے لوگوں کی بتائی ہوئی باتیں ہیںجن کا ہزاروں دفعہ جھوٹ تم خود آزما چکے ہو اور جو ٹکے ٹکے پر ایسی باتیں بتاتے دربدر مارے مارے پھرتے ہیں اور نبی چونکہ طبیب روحانی ہیں اس لیے قلبی امراض کا علاج اور دائمی صحت کی تدبیر بتاتے ہیں اور اس کی تمہیں مطلق پرواہ نہیں، فکر نہیں، اندیشہ نہیں بلکہ آنے والی آخرت کی زندگی کا جیسا یقین ہونا چاہیے وہ حاصل ہی نہیں اس لیے اس میں مناسبتیں پوچھتے ہو اللہ تعالیٰ ایسی غفلت سے بچائے جس کی وجہ سے عبادتوں میں بھی اتباعِ رسول اللہ ۖ نہ ہوسکے۔خاصیت اعمال میں ضعیف حدیث پر بھی عمل کرنا مناسب ہے : مسلمانوں کی یہی شان ہے کہ جس امر میں بھی کوئی حدیث وارد ہوئی ہو اُس میں بے چون و چرا اقتدا کر لیا کریں مثلاً رسولِ مقبول ۖ نے فرمایا ہے کہ ''اتوار یاجمعرات کو پچھنے لگوانے میں مرض برص کا اندیشہ ہے''ایک محدث نے اس حدیث کو ضعیف کہہ کر قصداً اتور کے دن پچھنے لگوائے تھے جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ برص میں مبتلا ہوگئے چند روز کے بعد ایک شب کو رسول ِمقبول ۖ کی زیارت سے مشرف ہوئے اور مرض کی شکایت کرنے لگے تو آنحضرت ۖ نے فرمایا کہ جیسا کیا ویسا بھگتو، اتوار کے دن پچھنے کیوں لگوائے تھے ؟ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ (ۖ) اس حدیث کا راوی ضعیف تھا آپ نے فرمایا کہ'' حدیث تو میری نقل کرتا تھا'' ١ عرض کیا یارسول اللہ ۖ خطا ہوئی میں توبہ کرتا ہوں، یہ سن کر جناب رسول اللہ ۖ نے دعا فرمائی اور صبح کو آنکھ کھلی تو مرض کا نشان بھی نہ رہا۔ ------------------------------١ یعنی میری طرف منسوب کرنا درجہ موضوعیت میں نہ تھا اور بیان تھا خاصیت ِعمل کا حلال اور حرام کا، پھر عمل کرنا ہی احتیاط کی بات تھی۔(حضرت تھانوی)