ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اکتوبر 2017 |
اكستان |
|
٭ دوسری وجہ : یہ ہے کہ دوائیں دو قسم کی ہوتیں ہیں بعض وہ کہ جن کے اثرو تاثیر میں مناسبت ہے مثلاً شہد چونکہ گرم ہے اس لیے گرم مزاج والوں کو نقصان دیتا ہے اور سرد مزاج والوں کو نفع پہنچاتا ہے ایسی دوائیں تو بہت کم ہیں کیونکہ اکثر دوائیں دوسری قسم میں داخل ہیں یعنی وہ دوائیں کہ جن کی تاثیر کسی مناسبت سے نہیں ہوتی اس کا نام'' خاصیت'' ہے اور ظاہر ہے کہ ہر شے کی خاصیت یا تو الہام سے معلوم ہوتی ہے یاوحی سے یا تجربہ سے مثلاً سقمونیا دست آور ہے اور رگوں سے صفرا کو کھینچ لیتا ہے یا مقناطیس کی یہ خاصیت ہے کہ لوہے کو اپنی جانب کھینچتاہے یہ دونوں تاثیریں تجربہ ہی سے معلوم ہوتی ہیں،اسی طرح اعمال و افعال کی تاثیریں بھی دو ہی طرح کی ہیں یعنی اعمال میں اور ان کی تاثیروں میں تو مناسبت کھلی ہوئی موجود ہے مثلاً نفس کی خواہشوں کا پورا کرنا اور دنیوی لذتوں کے پیچھے پڑ جانا مضر ہے کیونکہ جب مرتے وقت دنیا سے روانگی ہو گی اور ظاہر ہے کہ یہ ایک نہ ایک دن ضرور ہونا ہے تو اُس وقت ضرور ان لذتوں کو چھوڑتے ہوئے حسرت ہوگی اور جب کچھ بن نہ پڑے گا تو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھتا ہوارخصت ہوگا پس لذتوں میں پڑنے اور ان کے نقصان و ضرر میں مناسبت کھلی ہوئی ہے مثلاً ذکر الٰہی مفید ہے کیونکہ ذکر کے سبب اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوگی اور معرفت کی بدولت محبت پیدا ہو گی اور محبت خداوندی کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آخرت کی پائیدار لذتوں کا شوق پیدا ہو گا لہٰذا دنیا سے جاتے وقت کچھ بھی حسرت نہ ہوگی بلکہ اپنے محبوب سے ملنے کے شوق میں ہنسی خوشی روانہ ہوگا پس ذکر اللہ اور اس کے ثمرہ واثر میں بھی مناسبت ظاہر ہے۔ البتہ دوسری قسم کے اعمال اور ان کی تاثیر میں کچھ مناسبت معلوم نہیں ہوتی اور یہ وہی خاصیت ہے جو وحی اور نور ِنبوت کے علاوہ کسی طرح بھی معلوم نہیں ہوسکتی اور اکثر اعمالِ شریعت چونکہ اس قسم میں داخل ہیں لہٰذا جب تم دیکھو کہ رسول اللہ ۖ نے دو مباح کاموں میں سے باوجود دونوں پر قدرت ہونے کے ایک کو ترجیح دی ہے مثلاً استنجا دائیں ہاتھ سے بھی کر سکتے تھے مگر پھر بائیں ہاتھ کو اس کام میں لگایا اور سیدھے ہاتھ کو علیحدہ رکھا تو یہ علامت ہے کہ آپ نے اس کی خاصیت معلوم فرماکر ہی ایسا کیا