حقوق الوالدین |
ہم نوٹ : |
مقدور بھر کوشش کرلیتے ہیں، تو کیوں کہ ہم ان کی خدمت کا پورا حق ادا نہیں کرسکتے لہٰذا آپ سے دعا کرتے ہیں کہ آپ اپنے کرم کے شایانِ شان ان پر رحمت نازل فرمائیے۔ بچپن کو یاد کرو کہ ماں باپ نے تمہیں کس طرح پالا ہے، اس وقت تو تم سینہ تان کے چل رہے ہو اور بات بات میں ماں باپ کو جھڑک دیتے ہو کہ ماں باپ کو کیا ہوگیا ہے، ہر وقت یہی کہتے رہتے ہیں کہ فلاں کام کرو، فلاں نہ کرو، جان آفت میں ڈال رکھی ہے، ماں باپ سے بے ادبی کرتے ہیں، حالاں کہ اس آیت سے پہلے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: وَاخْفِضْ لَھُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَۃِ ماں باپ کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہو۔ اور اللہ تعالیٰ نے اولاد کو یہ نہیں فرمایا کہ اب تم ماں باپ پر رحم کرو۔ کیوں کہ اب وہ بوڑھے ہوگئے، لہٰذا تم ان کو پالو جیسا کہ انہوں نےتمہیں پالا ہے۔ نہیں، بلکہ یہ سکھایا کہ اے پروردگار آپ ان پر رحمت نازل کیجیے ، آپ ماں باپ کو خوشحالی دیجیے، آپ ہی دے سکتے ہیں، ہم نہیں دے سکتے، یہ عاجزی سکھائی کہ ہم کیا دے سکتے ہیں؟ آپ ہی دیتےہیں۔ دیکھیے! کیسا علم ہے۔ بھئی اگر اللہ تعالیٰ حلوہ کھلائے تب ہی تو ماں باپ کو ملے گا، ورنہ کیسے ملے گا؟ آیتِ مذکورہ میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کی مصلحت اور صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب کیا، یہ مضمون نبوت کو سکھایا تاکہ اہمیت معلوم ہو کہ مضمون اتنا اہم ہے کہ نبی کو یہ دعا سکھائی جارہی ہے کہ قُلْ آپ یہ دعا پڑھیے، حالاں کہ پیغمبروں پر اللہ کا فضل ہوتا ہے، وہ معصوم ہوتے ہیں، وہ غلطی نہیں کرسکتے، وہ اپنا بچپن اور والدین کے احسانات نہیں بھول سکتے لیکن ان ہی کے ذریعہ سے امت کو بات پہنچائی جاتی ہے۔ بات ان کو کہی جاتی ہے لیکن امتی نشانہ ہوتا ہے کہ امتی یاد رکھے، بھولنے نہ پائے۔ نبی کے مخاطَب اوّل صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہیں،جن کی اللہ سے نسبت اتنی قوی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمادیا: رَضِیَ اللہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ ۱۵؎ _____________________________________________ ۱۵؎البینۃ:8