حقوق الوالدین |
ہم نوٹ : |
|
مرید کو شیخ سے اور شیخ کو مرید سے انتہائی محبت ہوتی ہے۔ اب یہیں دیکھ لیجیے کہ ابھی اذان بھی نہیں ہوئی، بارہ بھی نہیں بجے لیکن اتنے سارے دوست جمع ہوگئے، آخر اتنا بڑا اجتماع کیوں ہوتا ہے؟ اسی محبت اورسلسلہ کی برکت سے، ورنہ کہیں اورایک گھنٹہ پہلے، دو گھنٹہ پہلے جاکر دیکھو، یہ اللہ والوں کی جوتیاں اْٹھانے کی برکت ہے۔ اللہ کے لیے محبت اللہ والا بنادیتی ہے اور اللہ کے نامِ پاک پر، اللہ کے لیے آپس میں جو محبت کا سلسلہ اور ذریعہ ہے تو یہ آپس میں اللہ تعالیٰ کے لیے محبت رکھنا بہت بڑی نعمت ہے اور یہ نعمت ایسی ہے کہ یہ اللہ میاں کی محبت دلادیتی ہے، بلکہ اللہ کے ذمے اپنی محبت کو عطا کرنا احساناً واجب ہوجاتا ہے۔ جولوگ آپس میں اللہ کے لیے بیٹھتے ہیں، اللہ کے لیے محبت کرتے ہیں، اللہ کے لیے ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہیں، اللہ کے لیے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو اپنی محبت عطا فرما دیتے ہیں۔ تو مریدوں نے اس کتے کو تلاش کرلیا، دیکھا کہ وہ ایک کتیا کے پیچھے پیچھے پھر رہا ہے، بس پھر جاکر شیخ سے کہا حضور! وہ کلوا کتا جو آپ کی مجلس میں آتا تھا آج کل ایک کتیا کے چکر میں پڑا ہوا ہے،اسی کے پیچھے پیچھے لگا رہتا ہے۔ کئی دن کے بعد جب کلوا کتا آیا تو شیخ نے ڈانٹ کر فرمایا اے کلوے! تجھے شرم نہیں آتی، تُو تو میری مجلس میں آتا تھا، اللہ کی باتیں سنتا تھا پھر بھی تو نے مجھ کو چھوڑکر غیروں سے دل لگالیا۔ حکیم الامت مجددِ ملت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بس! وہ کتا نکلا اور ایک نالی میں منہ رکھ کر مرگیا، مارے حیا اور شرم کے جان دے دی ؎ جان دے دی میں نے ان کے نام پر عشق نے سوچا نہ کچھ انجام پر جانوروں کو بھی حیا آتی ہے۔ کاش! ہمیں شرم وحیا آجائے کہ ہم اپنے بزرگوں کی مرضی اور راستے کے خلاف، ان کے علاج و تجویز کے خلاف کرتے ہوئے بدنظری کرنے اور دل کو غیر اللہ کے حوالے کرنے سے بچیں، چوری چھپے بھی ان بے حیائیوں سے بچیں۔ آخر اس کتے کو حیا آئی کہ نہیں آئی؟ جان دے دی اس نے مارے حیا کے۔