حقوق الوالدین |
ہم نوٹ : |
|
جھوٹی تعریف کررہا ہوں، تو تو میری جھوٹی تعریف میں آگیا اور جو گھوڑے نے گراگراکر تیرے اوپر اتنے سارے زخم لگائے ہیں، جو زخم ابھی ٹھیک بھی نہیں ہوئے توانہیں بھول گیا اور آگیا میرے چکر میں، چل پکڑاپنا گھوڑا اور جا۔ کبھی انسان ایسے بھی بے وقوف بن جاتا ہے۔ تواضع علامتِ قبولیت اور تکبر علامتِ مردودیت ہے بعض لوگوں کو جہاں کچھ لوگوں نے کہہ دیا کہ حضرت! حضرت! میں نے آپ کو خواب میں دیکھا کہ آپ آسمان پر اڑرہے ہیں اور آپ نے جو تعویز دیا تھا اس کو تو باندھتے ہی میرا سامان مل گیا، جو چور لے کر گیا تھا، اس کو بخار چڑھ گیا اور وہ دوڑا دوڑا میرا سامان واپس کرنے آیا۔ تو اس طرح دو چار تعریفیں کیا سنیں، بس!سمجھ گئے کہ اگر میں خدا کے ہاں مقبول نہ ہوتا تو یہ کرامتیں، یہ شعبدے بازیاں جو مجھے مل رہی ہیں،یہ کہاں سے ملتیں؟ ارے بے وقوف! ذرا سوچ تو کہ تُو کتنے گناہوں میں مبتلا ہے؟ تو خدائے تعالیٰ کے غضب وقہر کے اعمال اور ماضی کو بھول گیا؟ اللہ والوں نے تو اللہ کی ناراضگی والے اعمال سے بچنے میں جان کی بازی لگادی اور ہمیشہ ساری کائنات سے اپنے کو حقیر سمجھا، یہ علامت ہے ان کے قبول اور مقبول ہونے کی۔ جو اپنے کو بڑا سمجھے، سمجھ لو کہ یہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول نہیں ہے۔ دل میں اپنی بڑائی مردودیت کی علامت ہے،اور اپنی حقارت، اپنے کو حقیر اور چھوٹا سمجھنا مقبولیت کی علامت ہے ، اسی لیے حدیث شریف میں سکھایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے یوں دعا مانگو: اَللّٰھُمَّ اجْعَلْنِیْ فِیْ عَیْنِی صَغِیْرًا وَّفِیْ اَعْیُنِ النَّاسِ کَبِیْرًا 4؎اے اللہ! مجھے میری نظر میں چھوٹا دکھادے، مگر اپنے بندوں کی نظر میں مجھے بڑا دکھادے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ بندوں کی نظر میں بھی بڑا ہونے کی دعا نہیں مانگنی چاہیے، یعنی یہ کہ لوگ مجھے بڑا سمجھیں۔ اور اس میں حبِّ جاہ ہے، یہ بات بالکل غلط ہے، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا سکھائی ہے۔ لہٰذا آپ بندوں کی نظر میں اپنی بڑائی خدا سے مانگیے کہ یا اللہ! اپنے بندوں کی نظر میں مجھے بڑا بنادیجیے، کبیر بنادیجیے، مگر میری نظر میں مجھ کو صغیر کردیجیے، چھوٹا کردیجیے۔ _____________________________________________ 4؎مسند البزار: 315/10(4439)،مکتبۃ العلوم والحکم،المدینۃ المنورۃ