حقوق الوالدین |
ہم نوٹ : |
|
حقوق کی ادائیگی اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم نازل فرمایا ہے، تو یہ ماں باپ کی عظمت کے لیے ہے، تاکہ لوگوں کو احساس ہو کہ اللہ اکبر! ماں باپ کا کیا درجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور عظمت کے حکم کے ساتھ والدین کے بارے میں حکم نازل فرمایا، لہٰذا فرماتے ہیں کہ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ اور دیکھو! اپنے ماں باپ کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اچھے سلوک سے پیش آؤ۔ خواتین بھی سن لیں اور آپ حضرات بھی سن لیں، جن کے ماں باپ زندہ ہوں وہ ان سے اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آئیں اور اب تک ان کے حقوق میں جتنی کوتاہی ہوئی وہ ان سے اس کی معافی مانگیں اور ان سے عہد کرلیں کہ میں آیندہ نالائقی نہیں کروں گا بلکہ آپ کے سامنے ہمیشہ اپنے کو جھکاکر رکھوں گا، کیوں کہ ماں باپ کا بڑا مقام ہے۔ والدین کا مقام سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ جو نیک اولاد اپنے ماں باپ کو رحمت کی نظر سے دیکھے تو اللہ تعالیٰ ہر نظرِ رحمت پر اس کے لیے ایک مقبول حج کا ثواب لکھ دیتا ہے۔ یہاں صالح کی قید لگادی کہ نیک ہو، کم از کم فرض، واجب اور سنتِ مؤکدہ ادا کر تا ہو، نافرمانی سے بچتا ہو تو ایسے صالحین اگر اپنے ماں باپ کو نظرِ رحمت سے دیکھ لیں تو ہر نظرِ رحمت پر ایک مقبول حج کا ثواب ملے گا، لیکن نفلی حج کا ثواب ملے گا، فرض کا نہیں،یہ نہیں کہ تجوری میں ہزاروں روپے جمع ہیں، حج فرض ہوچکا ہے اور ماں باپ کو نظرِ رحمت سے جاکے دیکھ لیا اور سمجھے کہ میرا فرض حج ادا ہوگیا۔ فرض حج تو حرم کی حاضری ہی سے ادا ہوگا،اور ماں باپ کو رحمت کی نظر سے دیکھنے پر حج کا ثواب لینے کے لیے صالح ہونا بھی شرط ہے، یہ نہیں کہ نہ روزہ، نہ نماز، شراب و کباب میں مشغول ہیں اور جا کے والدین کو نظر رحمت سے دیکھ لیا اور سمجھے کہ نفلی حج کا ثواب مل گیا، بلکہ نیک ہونا بھی شرط ہے۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے پوچھا کہ اگر ایک شخص دن میں سو مرتبہ نظر رحمت سے دیکھے، تو کیا تب بھی اتنا ہی ثواب ملے گا؟ یعنی کیا سو حج کا ثواب ملے گا؟ اس پر آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے دو لفظ فرمائے کہ