حقوق الوالدین |
ہم نوٹ : |
|
ضعفاء عذابِ الٰہی سے حفاظت کا ذریعہ ہیں اور دوسری حدیث فیض القدیر شرح جامع صغیر میں ہے لَوْلَا شُیُوْخٌ رُکَّعٌ اگر بڑے بوڑھے، عمر کی زیادتی سے جن کی کمر ٹیڑھی ہوچکی ہے، رکوع کی حالت میں جھکے جھکے چلنے والے شیوخ، بڈھے نہ ہوتے وَاَطْفَالٌ رُضَّعٌا ور اگر دودھ پیتے معصوم بچے نہ ہوتے وَبَھَائِمٌ رُتَّعٌ اور اگر تمہارے درمیان بے زبان جانور نہ ہوتے: لَصُبَّ عَلَیْکُمُ الْعَذَابُ صَبًّا 10؎تو ہم تمہارے اوپر بارش کی طرح عذاب برسادیتے۔ دیکھیے فیض القدیر شرح جامع صغیر میں علامہ عبد الرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ نے روایت نقل کی ہے کہ ہم اپنے بڑے بوڑھوں کی برکت سے، بے زبان جانوروں کی برکت سے، دودھ پیتے بچوں کے صدقے میں عذاب سے بچے ہوئے ہیں۔ گزشتہ خطاؤں پر اللہ تعالیٰ اور والدین سے معافی مانگنے کی ہدایت تو اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ فرماتے ہیں تمہارا رب تمہارے مافی الضمیر کو خوب جانتا ہے اِنْ تَکُوْنُوْاصٰلِحِیْنَ اگر تم سعادت مند ہو یعنی تم دل سے محبت کرتے ہو لیکن کبھی جھنجھلاہٹ میں کوئی غلط بات منہ سے نکل گئی تو تم جلدی سے معافی مانگ لو، ماں باپ سے بھی اور ہم سے بھی، کیوں کہ فَاِنَّہٗ کَانَ لِلْاَوَّابِیْنَ غَفُوْرًا اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں کی خطا معاف کردیتا ہے۔ ہوسکتا ہے کبھی بیٹا دفتر سے تھکا ماندہ آیا ہو یا کسی مصیبت میں مبتلا ہو، اس کو ہزاروں غم ہوں، اس وقت ماں باپ نے کوئی بات کہی اور جھنجھلاہٹ میں اس کے منہ سے کچھ غلط نکل گیا تو بعد میں جب ہوش آجائے تو جلدی سے والدین سے معافی مانگ لے کہ آج میں تھکا ماندہ تھا یا مجھے صدمہ یا غم تھا یا میں پریشان تھا، اس وجہ سے میری زبان میں کچھ تیزی آگئی، میں معافی چاہتا ہوں، اللہ کے لیے مجھے معاف _____________________________________________ 10؎کنزالعمال:15/16(43732)،الترھیب الاحادی من الاکمال،ذکرہ بلفظ ولولا رجال خشع، وصبیان رضع ودواب رتع لصب علیكم البلاء صبا، مؤسسۃ الرسالۃ/ الجامع الصغیر:214/2