حقوق الوالدین |
ہم نوٹ : |
|
جب کوئی حسین اس کے پاس آکر بیٹھتا ہے پھر اس کے نفس کی بلی اس چوہے کو دیکھ کر کتنا قابو میں رہتی ہے۔ اگر بلی لاکھ دعویٰ کرے کہ میں نے ستر حج کیے ہیں، اس کی پارسائی کا اعتبار نہیں، لیکن جب اس کے پاس چوہا آجائے تو پھر غرغرائے نہیں اور مونچھوں کو کھڑی نہ کرے اور اس پر جھپٹ نہ مارے تب سمجھ لو کہ اب بلی صاحبہ بھگت بن گئی ہیں، کچھ بن گئی ہیں۔ تو جیسے قصائی اپنے بچھڑے کو پہچانتا ہے ایسے ہی بزرگوں کا، اللہ والوں کے غلاموں کا بھی معاملہ ہے، وہ پہچانتے ہیں کہ اس مرید کے اندر کتنا تقویٰ ہے۔ لہٰذا مریدوں کی تعریفوں سے، اپنے پیر بھائیوں کی تعریفوں سے اپنے کو کچھ نہ سمجھو، شیخ سمجھتا ہے کہ مرید کس مقام پر ہے۔ لوگوں کی تعریف سے خود کو بڑا سمجھنے والے کی مثال جو لوگ اپنے آپ کو لوگوں کی تعریف کی وجہ سے بڑا سمجھتے ہیں، ان کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص کا گھوڑا بڑا اڑیل تھا، اس کو گرادیا کرتا تھا۔ آخر اس نے عاجز ہوکر دلال سے کہا کہ میرا گھوڑا بِکوا دو، مجھے اتنا گراتا ہے کہ میں شدید زخمی ہوجاتا ہوں تو اس دلال نے بازار جاکر اپنا کمیشن لینے کے لیے گاہکوں سے کہاکہ یہ گھوڑا بڑا شاندار ہے۔ دلال اپنا کمیشن لینے کے لیے سچ نہیں بولتے جس سے ان کی روزی حرام ہوجاتی ہے الّا ماشاء اللہ، اگر یہ صحیح طریقے سے دونوں پارٹیوں کو ملالیں اور کمیشن لے لیں تو جائز ہے لیکن ایک پارٹی سے، جس سے خریدنا ہوتا ہے، کہتے ہیں کہ مارکیٹ گری ہوئی ہے اور جس کو بیچنا ہوتا ہے اس کو کہتے ہیں کہ مارکیٹ بہت ہائی جارہی ہے۔ ارے!اس جھوٹے کو اللہ کی دہائی دو کہ یہ اس سے توبہ کرلے۔ تودلال نے کہا کہ یہ گھوڑا ایسا دوڑتا ہے جیسے کشتی پانی پر چل رہی ہو، کبھی سوار اس پر چڑھ کر اپنے کو محسوس کرتا ہے کہ میں فلک سیر معجون کھائے ہوئے ہوں یعنی آسمان پر سیر کررہا ہوں۔ اس کی تعریفیں سن کر لوگوں نے دام لگانا شروع کردیے اور جس کا گھوڑا تھا وہ بھی دلال کے ساتھ ہی تھا اور یہ سب سن رہا تھا تو اس نے دلال کے کان میں کہا کہ خدا کے لیے رک جاؤ، ایسا عمدہ گھوڑا میں نہیں بیچتا جو فلک سیر ہے، آسمان کی سیر کراتا ہے تو دلال نے کہاابے گدھے! الّو! نالائق! تجھے اس گھوڑے کا دس سال کا تجربہ ہے، میں تو اپنا کمیشن سیدھا کرنے کے لیے ذرا سی