حقوق الوالدین |
ہم نوٹ : |
|
اگر تمہاری ماں یا تمہارا باپ تمہارے پاس بڑھاپے کو پہنچ گئے ہوں، اَحَدُھُمَا یعنی ماں یا باپ میں سے کوئی ایک زندہ ہو، اور بوڑھا ہوگیا ہو ، اَوْ کِلٰھُمَا یا دونوں زندہ ہوں، ماں بھی زندہ ہو اور باپ بھی زندہ ہو اور دونوں بڑھاپے کو پہنچ گئے ہوں، تو اللہ پاک فرماتے ہیں: فَلَا تَقُلۡ لَّہُمَاۤ اُفٍّ تو کبھی ان سے اف بھی نہ کرنا، یوں بھی نہ کہنا کہ اف!کیا کرتے ہیں ابا!، ہر وقت، جب دیکھو بیٹا! بیٹا! آوازیں دیتے رہتے ہیں اور کام بتاتے رہتے ہیں، ساٹھ سال کے ہوگئے لیکن اتنی سمجھ نہیں ہے، کیا مجھے کوئی اور کام نہیں ہے؟ کیا آپ کو پتا نہیں کہ بیٹے کا بھی تو بیٹا ہے، جس کے لیے دوا لینے جارہا ہوں۔ ایسے مت کہو، اف بھی نہ کرو، اگر انہوں نے کوئی فرمایش کردی اور آپ کو مجبوری ہے تو نرمی سے، ادب سے کہہ دو کہ آپ کا پوتا بیمار ہے، دوا لینے جارہا ہوں، آپ کا کیا ارشاد ہے؟ وہ کام بھی کر دوں گا، آپ لیٹے لیٹے دعا کیجیے، ابھی حاضر ہوتا ہوں، یا یوں کہہ دیا کہ آپ جب تک چائے پیجیے، چائے وائے نہ ہو تو بیوی سے کہہ دو کہ ابا میاں کو ایک پیالی چائے بھیج دو۔ بھائی! اگر کسی مجبوری سے ان کی فرمایش پوری نہیں کرسکتے تو معذرت کرلو، لیکن ڈانٹ ڈپٹ سے بات مت کرو۔ لفظِ ’’اُف ‘‘ کا معنیٰ تو ماں باپ کے لیے اللہ کا حکم آرہا ہے کہ ماں باپ سے اف نہ کہنا، اف کے کیا معنیٰ ہیں؟ خالی اف ہی مراد نہیں ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ اف کا مطلب ہے: اَلْمَنْعُ مِنْ اِظْہَارِ الزَّجْرِ الْقَلِیْلِ وَالْکَثِیْرِ 6؎یعنی ان کی کسی بات سے اپنے زِچ ہونے، تنگ ہونے اور ناگواری کا بالکل اظہار مت کرو، نہ تھوڑا نہ زیادہ، چاہے کوئی لفظ کہہ کر کرو یا کسی حرکت سے، کیوں کہ اس سے ان کو تکلیف ہوگی۔ یہ نہیں کہ ان کی کوئی بات ناگوار معلوم ہوئی تو اوفو، اوں ہوں، کیا ہے،کہنا شروع ہوگئے یا زور _____________________________________________ 6؎روح المعانی: 55/15، بنی اسرآءِ یل(23)،داراحیاءالتراث،بیروت