حقوق الوالدین |
ہم نوٹ : |
|
پوچھا بیٹا!یہ کیا ہے دیوار پر؟ تو بیٹے نے کہاکاکا! کیا رٹ لگا رکھی ہے، زیادہ ٹر ٹر نہ کرو، سیدھے پڑے رہو، اب مجھے برداشت نہیں ہے، تین دفعہ تو جواب دے چکا ہوں، اب کہا تو آپ کو پاگل خانے میں داخل کردوں گا، اب آپ ساٹھ سال سے اوپر ہوگئے ہیں، اس لیے سٹھیاگئے ہیں۔ تب اس بنیے نے کہا منشی! ذرا میرا کھاتہ تو لے آنا، پھر کھاتہکھول کر بیٹے کے سامنے رکھا اور اسے دکھا کر کہا او ظالم! نالائق! خبیث! دیکھ اس کے اندر، جب تو چھوٹاتھا تو تُو نے یہی سوال سو مرتبہ مجھ سے پوچھا تھا اور میں نے باپ کی شفقت کی وجہ سے تجھے سو دفعہ جواب دیا تھا اور اب تو تین دفعہ کے بعد بے زار ہوگیا، تو نے باپ کا کیا حق ادا کیا ہے؟ یہ واقعہ مجھ سے شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا تھا۔ والدین سے بے ادبی کسی حال میں جائز نہیں اگر ماں باپ سے ظلم بھی ہو جائے تو بھی ان کے ساتھ گستاخی اور بدتمیزی جائز نہیں ہے۔ سرورِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ وَاِنْ ظَلَمَاہُ اگر ہمارے ماں باپ ہم پر ظلم بھی کریں تو کیا پھر بھی ہم ان کے ساتھ احسان کریں؟ تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: وَاِنْ ظَلَمَاہُ، وَاِنْ ظَلَمَاہُ، وَ اِنْ ظَلَمَاہُ 7؎ہاں!اگرچہ وہ ظلم کریں، اگرچہ وہ ظلم کریں، اگرچہ وہ ظلم کریں، تین مرتبہ فرمایا۔ معلوم ہوا کہ بڑھاپے کی وجہ سے اگر ماں باپ کا تحمل کمزور ہو جائے، ان کے دل و دماغ کمزور ہو جائیں اور وہ اولاد سے ظلم و زیادتی بھی کر بیٹھیں تو ان کے ظلم پر صبر کرو۔ جب ماں باپ بوڑھے ہو جاتے ہیں تو مثل بچے کے کمزور ہو جاتے ہیں، چھوٹے بچے کی طرح ان کے دل و دماغ کمزور ہو جاتے ہیں، لہٰذا اگر ان سے غلطی ہو جائے، بے جا ڈانٹ ڈپٹ کریں تو اس کو برداشت کرو، جب بڑے ناراض ہو جائیں تو چھوٹے بڑوں کی رعایت کریں۔ ساس بہو سے بڑی ہے لہٰذا بہو کو چاہیے کہ اگر وہ اپنی بہو سے آرام اٹھانا چاہتی ہے تو اپنی ساس کو خوش رکھے، اگر اپنی بہو سے اپنا اِکرام چاہتی ہے تو آج اپنی ساس کا اِکرام کرے اور بیٹے صاحب اگر اپنی اولاد سے آرام اٹھانا _____________________________________________ 7؎مشکٰوۃالمصابیح:421/2 ،باب البر والصلۃ، المکتبۃ القدیمیۃ