حقوق الوالدین |
ہم نوٹ : |
|
جان دے دی میں نے ان کے نام پر عشق نے سوچا نہ کچھ انجام پر یہ راستہ ڈھیلوں کا نہیں ہے اور ڈِھیلوں کا بھی نہیں ہے،یہ شیروں کا راستہ ہے، جان دینے کا راستہ ہے، جس کو خدائے تعالیٰ توفیق دے وہی طے کرتا ہے۔ مرید کو اپنے پاس قیام کی اجازت دیناشیخ کا احسانِ عظیم ہے کیا اس شخص کو ولایتِ علیا کا خواب بھی نظر آئے گاجس کے اندر فنائے نفس کا اتنا مادّہ بھی نہ ہو کہ شیخ کے پاس رہتے ہوئے غصہ گرمی نہ دکھائے اور شیخ کی ذرا سی ڈانٹ کو برداشت کرلے، بس شیخ اپنے مقام سے نزول کرکے اجازت دے دیتا ہے کہ چلو! ہمارے پاس پڑے رہو، اس طرح سے گناہِ کبیرہ سے تو بچے رہو گے۔ بعض کو فسق وفجور، نافرمانی اور گناہِ کبیرہ سے بچانے کے لیے خانقاہ میں رہنے کی اجازت دی جاتی ہے، کیوں کہ وہ بدنظری اور عشقِ مجازی کے کینسر کے مریض ہیں، جو آئی سی یو (I.C.U) میں رکھے جاتے ہیں، اور ان کی انتہائی نگہداشت کی جاتی ہے، اگروہ باہر رہیں اور ان کو انتہائی نگہداشت کے کمرے میں نہ رکھا جائے تو وہ پہلوان نہیں بنیں گے بلکہ ان کا کینسر بڑھتے بڑھتے ان کو روحانی موت کے گھاٹ اتاردے گا، اس لیے ان کو رکھ لیا جاتا ہے تاکہ روحانی موت سے اور ہلاکت سے بچ جائیں۔ شیخِ کامل اپنے مرید کو اچھی طرح جانتا ہے لیکن جو لوگ اللہ تعالیٰ کو مراد بناتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے راستے میں جانبازی دکھاتے ہیں اور اپنے فہم کی سلامتی پیش کرتے ہیں تو شیخ کو بھی پتا چل جاتا ہے کہ وہ کس مقام پر ہیں،اور جن کو اللہ کی طلب نہیں ہوتی شیخ کو ان کا بھی اندازہ ہو جاتا ہے، جیسے قصائی اپنے بچھڑے کو جانتا ہے کہ اب اس کے دو دانت آگئے ہیں، اب تین دانت آگئے ہیں، اب چار دانت آگئے ہیں۔ اسی طرح شیخ بھی اپنے مریدوں کو جانتا ہے کہ اب اس کے کتنے دانت آگئے ہیں، کتنی ترقی کرگیا ہے۔ کوئی لاکھ اشکبار آنکھوں سے روئے، رات بھر تہجد میں گزارے لیکن شیخ کسی کے آنسوؤں سے، اس کی نفلی عبادات سے دھوکا نہیں کھاسکتا۔ شیخ تو یہ دیکھتا ہے کہ