حقوق الوالدین |
ہم نوٹ : |
اور وہ وقت ہمارے لیے سات آسمان اور زمین اور تمام دنیا کی سلطنتوں سے افضل ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ہمیں ایسا جذبۂ ایمان اور یقین نصیب فرمادے۔ صحبتِ شیخ کے آداب جو انسان کسی ایک سانس بھی اللہ تعالیٰ کو نہ بھلائے اور ہر نافرمانی سے بچے وہ صاحبِ نسبت ہے،اور جسے ہر وقت خانقاہ میں رہتے ہوئے بھی احساس نہ ہو کہ ہمارا شیخ یہاں رہتا ہے اور وہ شیخ کو فراموش کردے اور اس کی مرضی کے خلاف آواز میں بلندی لائے، اس کو نسبت مع الشیخ حاصل نہیں ہے، اس کی اپنے نفس کے ساتھ نسبت اس کی نسبت مع الشیخ پر غالب ہے، اگر اس کو اپنے شیخ کے ساتھ پچاس فیصد نسبت ہے، تو اکیاون فیصد اپنے نفس کے ساتھ ہے۔ جب اس کے نفس کی نسبت مغلوب ہو جائے گی اور شیخ کی نسبت غالب ہو جائے گی تو پھر کبھی اس کی جرأت نہیں ہوگی کہ اپنے شیخ کو اذیت پہنچاسکے۔ حالتِ غضب میں بھی یاد رکھے گا کہ کہیں شیخ کو اذیت نہ پہنچ جائے، اور جو مرید حالتِ غضب میں شیخ کو بھول جائے اور خانقاہ ہی میں لڑائی شروع کردے تو سمجھ لو کہ یہ نفس کا غلام ہے، یہ شیخ کا غلام نہیں ہے، یہ ابھی نسبت مع الشیخ سے کوسوں دور ہے۔ حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فنائیت اور اخلاص آپ کو خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا واقعہ معلوم ہے کہ جنگ ہورہی ہے، حالتِ جنگ میں خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سپہ سالار اور کمانڈر ان چیف کو معزول کرکے سپاہی بنادیا جاتا ہے، اگر آج کل کا کمانڈر ان چیف ہوتا تو کہتا کہ اچھا! مجھ جیسے کمانڈر کو آپ نے سپاہی بنادیا، ایسی تیسی ایسی نوکری کی، اب میں لڑتا بھی نہیں ہوں اور بددعا بھی دے گا کہ اللہ کرے ہماری فوج یہ جنگ ہار جائے تاکہ میرا نام ہو کہ اس کے سپہ سالار نہ رہنے کی وجہ سے شکست ہوگئی لیکن جب خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ کو کمانڈر ان چیف سے اتارکر سپاہی بنایا گیا تو انہوں نے تلوار لے کر سپاہیوں کے ساتھ عام عسکری اور فوجی کی طرح لڑنا شروع کردیا اور آپ نے اعلان فرمایا: اے لوگو!جس طرح میں کمانڈر ان چیف اور سپہ سالاری کی حالت میں فوج کے اور لشکر کے امیر کی حالت میں لڑرہا تھااسی طرح میں اب بھی اللہ کے لیے بحیثیتِ سپاہی اللہ کے راستے میں لڑوں گا اور جان دینے