حقوق الوالدین |
ہم نوٹ : |
|
رہے، اب امتحان ہے کہ بیوی سے لگا رہتا ہے یا اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری کے لیے دوڑتا ہے۔ کبھی بیوی نے کہہ دیا کہ میرے لیے زیور لے آؤ لیکن پیسہ ہی نہیں ہے، سود پر قرضہ لیا اور اس کی فرمایش کو پورا کرنے کے لیے زیور لینے چلے گئے، نہ جائز دیکھا، نہ ناجائز دیکھا، بس بیوی خوش ہوجائے، اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی بھی پرواہ نہ کی، شروع شروع میں اس کی بہت زیادہ محبت دل میں محسوس ہوتی ہے کہ جائز ناجائز کا بھی ہوش نہیں رہتا الا ماشاء اللہ۔ ایسے لوگ کم ہیں جو سب کا حق ادا کریں، ماں کا حق بھی دیکھیں، بیوی کا حق بھی دیکھیں اور باپ کا حق بھی دیکھیں، ورنہ زیادہ تر یہی ہوتا ہے کہ نئی نئی شادی ہوئی اور بیوی کے عشق و محبت کا جادو ہوگیا اور اپنے ماں باپ کو بھول گیا۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ ساس اور بہو میں کچھ نہ کچھ ان بن رہتی ہے مگر بعض ساس بہو ایسی ہیں کہ ماں بیٹی کی طرح سے رہتی ہیں۔ لہٰذا بیوی کی بے جا حمایت نہ کرو کہ ماں کے ساتھ زیادتی ہوجائے۔ ماں کے ساتھ بے ادبی نہ کرو، کوئی بات سمجھانی ہو تو ان کو پیار و محبت اور ادب سے سمجھاؤ۔ ایک عبرت ناک واقعہ بمبئی میں ایک مولوی صاحب تھے جو میرے پیر بھائی تھے میرے شیخ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ سے بیعت تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا کہ جب میری شادی ہوئی تو میں بیوی کے حسن سے اتنامتأثر ہوا کہ میں ماں اور بیوی کے جھگڑے میں بیوی کی بے جا حمایت کرتا تھا کہ دیکھو امّاں! جیسے تم اپنی بیٹی کو چاہتی ہو ایسے ہی اس کو بھی چاہو۔ بس بات بات میں ماں بیٹے میں لڑائی ہوتی تھی۔ تو ایک دن انہوں نے کسی بات پر ماں کو جھڑک دیا، ماں کو غصہ آگیا۔ اس نے کہا کہ اللہ تجھ کو کوڑھی کرکے مارے اور اللہ تجھ کو میرے جنازے میں شریک نہ کرے، تو اپنے ہاتھوں سے میرا جنازہ نہ اٹھا پائے۔ یاد رکھو ماں باپ کی دعا فوراً قبول ہوتی ہے، وہ صاحب بمبئی میں مجھے ملے، ماں کی دعا قبول ہوگئی تھی، ان کی تمام انگلیوں میں کوڑھ ہوگیا تھا اور انگلیوں سے ہر وقت مواد رستا رہتا تھا۔ بے چارے رو کر کہتے تھے کہ ماں نے دو بددعائیں کی تھیں دونوں لگ گئی ہیں، کوڑھ بھی ہوگیا اور میں اپنی ماں کے جنازے میں بھی شریک نہ ہوسکا، حالاں کہ بہت نیک آدمی تھے۔ اتنے نیک تھے کہ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب کے خلیفہ ہیں۔