حقوق الوالدین |
ہم نوٹ : |
ہوجاتی ہے تو شوہر اس کا علاج کراتا ہے یا نہیں؟ اسی طرح بیوی کا علاج کرانا شوہر کے ذمہ واجب نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ کراتا ہے، کیوں کہ بیوی بھی صرف ضابطہ کا حق ادا نہیں کرتی، رابطہ کا حق بھی ادا کرتی ہے۔ مثلاً شوہر کے لیے اور گھر کے لیے کھانا پکا دیتی ہے، گھر کا کام کاج کردیتی ہے یہ اس کا حقِ رابطہ ہے مگر شریعت کے ضابطے کی رو سے اس کے لیے ضروری نہیں ۔ مگر آج کل معاملہ یہ ہے کہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ گھر بھر کی خدمت کرنا بیوی کے ذمے ہے جو سراسر غلط اور ظلم ہے۔ ماں باپ کے حقوق ادا کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بیوی پر ظلم کرے۔ اس لیے جب یہ دیکھے کہ بیوی میری ماں کی وجہ سے تکلیف میں ہے تو اس تکلیف سے نجات دلانا شوہر کے ذمے واجب ہے۔ اس سے غفلت بہت بڑا ظلم ہے، کیوں کہ بیویوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں سفارش فرمائی ہے کہ: وَعَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ 14؎اپنی بیویوں سے بھلائی کے ساتھ پیش آؤ۔ لہٰذا دونوں کے حقوق کا خیال رکھو اور اس کے لیے کسی اللہ والے سے مشورہ کرتے رہو۔ تو میں عرض کررہا تھا کہ جب آدمی کی شادی ہوتی ہے تو بیوی کو پاکر ماں باپ کو بھول جاتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی پرورش کو یاد دلایا کہ یاد کرو کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا جیسا کہ بچپن میں انہوں نے مجھے پالا ہے، اپنا بچپن نہ بھولو، اسی لیے کہ بھولنے کا امکان ہے۔ اگر بھولنے کا امکان ہی نہ ہوتا تو کسی غیر ممکن کام کے لیے اللہ تعالیٰ بندوں سے کیوں فرماتے، اس سبق کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ لہٰذا سکھایا کہ یوں دعا کرو کہ اے اللہ! آپ نے ہمارے اوپر فضل فرمایا کہ ہمارے ماں باپ کے دل میں رحمت ڈال دی کہ انہوں نے ہمیں پالا اب ماں باپ معذور ہوگئے، بوڑھے ہوگئے، تو اے اللہ تعالیٰ! اب آپ ہمارے ان ماں باپ پر رحم فرمائیے، اس لیے کہ ہم ماں باپ کی خدمت کا حق ادا نہیں کرسکتے، بس ان کی راحت رسانی کی _____________________________________________ 14؎النساء:19