حقوق الوالدین |
ہم نوٹ : |
|
بڈھے ہوگئے تو تم کو رحم آنا چاہیے کہ نہیں؟ جب تم ایک فٹ کے تھے تو ماں باپ نے کتنا تمہارا گُو موت اٹھایاتھا، تمہاری پرورش میں کتنی تکلیف اٹھائی، رات رات بھر ماں پالتی تھی اور خود تمہارے پیشاب کی جگہ ٹھنڈے موسم میں لیٹتی تھی، تم کو سوکھے گدے پر لٹاتی تھی اور پھر صبح وہ نہاتی تھی، کپڑے بدل کر نماز پڑھتی تھی، تو اپنے گُو موت کے بچپن کے زمانے کو یاد رکھو۔ اس لیے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ماں باپ کے سامنے انکساری اور تواضع سے جھکے رہنا،اور جھکنا کس وجہ سے؟ مِنَ الرَّحْمَۃِ ، رحمت کی وجہ سے۔ والدین کے لیے دعائے رحمت کی تلقین اور آگے فرماتے ہیں کہ خالی جھکنے ہی سے نہیں کام چلے گا بلکہ ان کے لیے دعا بھی مانگنا، وہ کون سی دعا ہے؟ آہ! ہمارا آپ کا خالق سکھارہا ہے: وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا یوں دعا مانگنا کہ اے میرے رب! میرے ماں باپ پر رحمت نازل کیجیے جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے پالا، پرورش کی، میرے اوپر رحم کیا، اللہ تعالیٰ ہمارا بچپن یاد دلارہے ہیں۔ ہم پچپن سال کے ہو جاتے ہیں تو اپنا بچپن بھول جاتے ہیں۔ جوانی اور طاقت میں بوڑھے ماں باپ سے انسان گستاخیاں کرجاتا ہے اور کہتا ہے کہ بس اب برداشت نہیں ہورہا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ایسی دعا سکھائی جس میں ہمیں ہمارا بچپن یاد دلادیا اور ماں باپ کے احسانات بھی یاد دلا دیے کہ ان احسانات کے بدلے میں مجھ سے یوں دعا کرو: وَ قُلۡ رَّبِّ ارۡحَمۡہُمَا کَمَا رَبَّیٰنِیۡ صَغِیۡرًا اے میرے رب! میرے ماں باپ پر رحمت نازل فرماجیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے پالا یعنی میرے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا۔یہ دعا بھی ہونی چاہیے۔ مرشدکے لیے دعائے رحمت کا ثبوت اسی آیت کے ذیل میں حکیم الامت مجدد الملت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ تفسیر بیان القرآن کے ایک حاشیہ میں جس کا نام مَسَائِلُ السُّلُوْکِ فِیْ کَلَامِ مَلِکِ الْمُلُوْکِ