حقوق الوالدین |
ہم نوٹ : |
|
لہٰذا اس چیز سے ہوشیار رہنا چاہیے کہ ماں کا دل نہ دکھنے پائے۔ اب یہ صبر کا امتحان ہے، ماں کمزور ہے، بڑھاپا ہے لیکن بس سے اتارنے کے لیے بیوی کو پکڑ رہا ہے اور ماں کو نہیں پکڑ رہا۔ یہ کیا بات ہے؟ ماں کو پکڑنا چاہیے، بیوی تو نوجوان ہے وہ خود بس سے اتر جائے گی۔ ایسے موقع پہ ماں کو ترجیح دو۔ (روتے ہوئے فرمایا کہ) ماں باپ کی خدمت کرو،بیوی کو سمجھاؤ کہ ماں نے بچپن میں مجھے پالا ہے، جب ایک ہاتھ کا چھوٹا ساتھا، لہٰذا میری ماں کا دل دکھنے نہ پائے، چاہے مجھ سے بدسلوکی کرلو لیکن میری ماں کے ساتھ اچھا سلوک کرو، میری ماں نے مجھے پالا ہے، میں ماں کا حق کبھی ادا نہیں کرسکتا۔ ماں اور بیوی دونوں کے حقوق ادا کریں لہٰذا جب شادی ہوجائے تو ماں کا حق اور بیوی کا حق دونوں کو سامنے رکھنا چاہیے اور یہ دونوں کا حق ادا کرنا اللہ والوں سے سیکھنا پڑتا ہے۔ آج کل ہمارے گھروں میں جب لڑکیاں شادی ہوکر آتی ہیں تو اکثر ساسیں بہوؤں کو بہت تنگ کرتی ہیں اور یہ سمجھتی ہیں کہ یہ بہو نہیں خادمہ ہے۔ گھر کا سارا کام اس کے ذمے لگادیا جاتا ہے، یہاں تک کے برتن دھونے سے لے کر دیور اور جیٹھ کے کپڑے دھونے تک سب کام اس سے کروائے جاتے ہیں، دیور اور جیٹھ جنہیں احادیث مبارکہ میں عورت کے لیے موت فرمایا گیا ہے، بیوی سے ان کی خدمت کرانا کتنی بڑی بے حیائی کی بات ہے، حالاں کہ شریعت نے ضابطہ یہ رکھا ہے کہ بیوی کے ذمے پورے گھر والوں کی خدمت نہیں ہے، اور یہ بھی ضابطہ رکھا ہے کہ اگر ساس بہو میں نہیں بنتی تو بیوی کو الگ گھر لے کر دینا شوہر پر واجب ہے، یہ بیوی کے حقوق میں سے ہے، اگرنہیں دے گا تو ظالم ہوگا۔ شوہر کے ذمہ واجب ہے کہ نان نفقہ اور مکان اپنی حیثیت کے مطابق بیوی کو دے، اگر بالفرض بیوی یہ کہہ دے کہ میں گھر کا کام نہیں کرتی، مجھے روٹی لاکر دو تو شوہر کے ذمہ روٹی لانا واجب ہے، وہ اسے گھر کے کام کاج پر مجبور نہیں کرسکتا لیکن ایسا ہوتا نہیں ہے، کیوں کہ ضابطہ کے حق کے ساتھ رابطہ کا بھی حق ہے، اور وہ یہ ہے کہ جیسے بیوی کبھی بیمار