ہم جنس پرستی کی تباہ کاریاں اور ان کا علاج |
ہم نوٹ : |
|
عرض مرتب احقر عشرت جمیل میرعفا اللہ عنہ عرض کرتا ہے کہ مرشدی و مولائی محبی و محبوبی وسیلتہ یومی وغدی شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجدد وقت حضرتِ اقدس مولانا شاہ حکیم محمداختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ ۱۹۸۰ھ سے بنگلہ دیش کے خواص علماء و عوام کی دعوت پر ہر سال وہاں کا سفر فرماتے رہے اور بنگلہ دیش میں تصوف و سلوک حضرت والا کی محنتوں سے زندہ ہوا اور بڑے بڑے علماء، محدثین و مفسرین حضرت والا کے ہاتھ پر بیعت ہوئے اور قریہ قریہ، شہر شہر اللہ کی محبت کی آگ لگ گئی۔ اسی سلسلہ میں حضرت والا نے ۱۹۸۶ھ میں بھی بنگلہ دیش کا سفر فرمایا، جس میں حسبِ معمول حضرت اقدس رحمۃ اللہ علیہ کے متعدد مقامات پر اور دینی اداروں میں نہایت اثر انگیز بیانات ہوئے۔ اس سفر میں حضرت والا کا ایک وعظ حضرت مولانا عبدالرحمٰن صاحب رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ حضرت والا اور مہتممِ مدرسہ حافظیہ امدادیہ، زنجیرا، رحمت پور کی دعوت پر بتاریخ ۲۱؍شعبان المعظم ۱۴۱۶ھ مطابق یکم مئی ۱۹۸۶ھ ان کے حجرہ میں ہوا، جہاں مدرسہ کے طلباء و اساتذہ جمع تھے اور حضرت مولانا محمد علی صاحب چاند پوری رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ اور دوسرے اکابر علماء بھی موجود تھے۔ اس وعظ میں حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ جلال الدین رومی رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے شیخ شمس الدین تبریزی رحمۃ اللہ کی حکایات کو جو بذاتِ خود عشقِ الٰہی اور معرفت و محبت کا سمندر ہیں اپنے دلنشیں اور درد بھرے انداز میں بیان فرماتے ہوئے عشقِ مجازی کی پستی و حقارت اور عشقِ الٰہی کی رفعت وعظمت کو بیان کیا، خصوصاً دورِ حاضر میں تیزی سے پھیلتی تباہی و بربادی،ان میں مبتلا کرنے کی نفس و شیطان کی چالیں اوران سے بچاؤ کے طریقوں کو مفصل بیان فرمایا، جن کو بیان کرنے سے دوسرے حضرات حتیٰ کہ علماء تک گھبراتے ہیں لیکن چوں کہ یہ مرض اور حسن پرستی کے دیگر امراض کینسر کی طرح امت کو ہلاک کررہے ہیں، جن کے معالجہ کے لیے بفضلہٖ تعالیٰ حضرت والا مؤید من اللہ تھے، اس لیے حضرت والا شروع ہی سے ان مضامین کو ببانگِ دہل بیان کرتے تھے، تقریباً ۴۶ سال تو احقر نے حضرت سے یہ مضامین سنے۔