ہم جنس پرستی کی تباہ کاریاں اور ان کا علاج |
ہم نوٹ : |
|
آیاتِ قرآنیہ سے گمراہ فرقوں کا رد اور جو یہ کہے کہ بغیر سمجھے قرآنِ پاک پڑھنے کا ثواب نہیں ملتا، وہ یا تو بددین ہے یا جاہل ہے۔ اس کی دلیل ہے الٓمٓ پر تیس نیکیاں ملنا: مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِّنْ کِتَابِ اللہِ فَلَہٗ بِہٖ حَسَنَۃٌ وَالْحَسَنَۃُ بِعَشْرِ اَمْثَالِہَا لَا اَقُوْلُ الٓمٓ حَرْفٌ وَلٰکِنْ اَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِیْمٌ حَرْفٌ 18؎جو شخص ایک حرف کتاب اللہ کا پڑھے اس کے لیے ایک حرف کے عوض ایک نیکی ہے اور ایک نیکی کا اجر دس نیکی کے برابر ملتا ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ سارا الٓمٓ ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف، لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے۔ اس میں غور کریں کہ مثال دینے کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے الٓمٓ کا ہی انتخاب کیوں کیا؟ جبکہ سارا قرآن الفاظ سے بھرا ہوا ہے، کیوں کہ الٓمٓ کے معنیٰ سوائے اللہ تعالیٰ کے کوئی نہیں جانتا، پھر بھی اس کی تلاوت پر تیس نیکیاں مل رہی ہیں اور ایک فرقہ نیچریوں کا پیدا ہونے والا تھا، جو یہ کہتا تھا کہ قرآن کو بغیر سمجھے پڑھنا بے کار ہے، جیسا کہ آج کل بعض گمراہ قسم کے لوگ یہ باتیں پھیلا رہے ہیں۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ مثال اس لیے دی تاکہ کل کوئی یہ فتنہ پیدا نہ کرے کہ بے سمجھے قرآن پڑھنے کا کوئی ثواب نہیں ہے۔ لہٰذا زبانِ نبوت سے یہ مثال قیامت تک کے فتنوں کا رد ہے۔ اسی طرح قرآنِ پاک میں ہے: اِنَّہٗ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ 19؎بے شک اللہ تعالیٰ بکثرت توبہ قبول کرنے والا بڑا رحم کرنے والا ہے۔ علامہ آلوسی رحمۃاللہ علیہ تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صفتِ تواب کے بعد صفتِ رحِیم کیوں نازل کی؟ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ میں جو تمہاری توبہ قبول کرتا ہوں تو اس وجہ سے نہیں کہ میں.اس کا پابند ہوں، بلکہ وجہ یہ ہے کہ میں رحیم ہوں، اپنی شانِ رحمت سے معاف کرتا _____________________________________________ 18؎جامع الترمذی:119/2، باب ماجاء فی من قرأ حرفا من القرآن ما لہ من اجر ،ایج ایم سعید 19؎البقرۃ:27