ہم جنس پرستی کی تباہ کاریاں اور ان کا علاج |
ہم نوٹ : |
|
دوسری شرط: ’’سامع اہلِ ہوا نباشد‘‘،شعر سننے والا آدمی اہلِ نفس، اہلِ ہوا نہ ہو جس کو عشقیہ شعر سن کر کوئی دنیاوی معشوق یاد آجائے۔ بلکہ اشعار سننے والے سب اللہ کے عاشق ہوں اور نفسانی محبت سے پاک ہو چکے ہوں، ان پر روحانیت کا غلبہ ہو، ان کے قلوب مزکّٰی، پاکیزہ، مصفّٰی اور مجلّٰی ہوں۔ تیسری شرط: ’’مضمون خلافِ شرع نباشد‘‘، اشعار کے مضامین شریعت کے خلاف نہ ہوں، جیسے آج کل کے قوال خلافِ شرع مضامین بیان کرتے ہیں، زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں، نبی کو خدا سے بڑھا دیتے ہیں اور اولیاء اللہ کو نعوذ باللہ! خدا کی حکومت میں شریک قرار دے کر امت کو گمراہ کرتے ہیں۔ اللہ وحدہٗ لاشریک ہے، اس کا کوئی ہمسر، کوئی شریک نہیں ہے، سارا اختیار اللہ تعالیٰ کا ہے۔ چوتھی شرط: ’’آلہ لہو و لعب نہ باشد‘‘، اور چوتھی شرط یہ ہے کہ آلاتِ مزامیر یعنی گانے بجانے کے آلات، سارنگی، طبلہ وساز نہ ہوں کہ یہ سب حرام اور گناہِ کبیرہ ہیں۔ اشعار کا حکم حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ اشعار کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اشعار کا کیا حکم ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہُوَ کَلَامٌ فَحَسَنُہٗ حَسَنٌ وَقَبِیْحُہٗ قَبِیْحٌ 9؎شعر ایک کلام ہے، پس اچھا ہے تو اچھا ہے اور بُرا ہے تو بُرا ہے۔ بزرگوں نے لکھا ہے کہ اشعار کی مثال حوض کی سی ہے، اگر حوض میں ناپاک پانی ہے تو اگر کوئی اس میں غوطہ مارے گا تو ناپاک ہوجائے گا، لیکن اگر حوض میں عرقِ گلاب ہے تو اس میں غوطہ مارنے سے سارا جسم مہک اٹھے گا۔ پس اگر دل میں اللہ پاک کی محبت ہے تو اچھے اشعار سن کر دل میں اللہ کی محبت کا جو ش اٹھے گا اور اگر حسینوں کا عشق ہے، اَمردوں کا عشق ہے تو اس کا خیال اسی طرف جائے گا۔ تو میں عرض کر رہا تھا کہ ہمارے بزرگوں نے فرمایا ہے اور میرا مشورہ بھی یہی ہے کہ _____________________________________________ 9؎السنن الکبرٰی، باب شہادۃ الشعراء۔/ کنز العمال، 577/3،(7976)، باب فی اخلاق وافعال مذمومۃ تختص باللسان، مطبوعۃ مؤسسۃ الرسالۃ۔ اَلشِّعْرُ کَلَامٌ بِمَنْزِلَۃِ الْکَلَامِ فَحَسَنُہٗ حَسَنُ الْکَلَامِ وَقَبِیْحُہٗ قَبِیْحُ الْکَلَامِ