ہم جنس پرستی کی تباہ کاریاں اور ان کا علاج |
ہم نوٹ : |
|
لیکن اللہ کی محبت اس تہمت سے پاک ہے۔ اللہ کے عاشقوں میں کبھی لڑائی نہیں ہوتی، تمام عاشق ایک دوسرے پر فدا ہوتے ہیں۔ اللہ کی پاک محبت کے عاشق بھی پاک ہوتے ہیں، جلن، حسد، لڑائی، بغض، کینہ، ایک دوسرے کا بُرا چاہنا ان جھگڑوں سے وہ پاک ہوتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہی ہیں کہ اللہ والوں میں کیسی محبت ہوتی ہے۔ اس کے بعد مولانا رومی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ قصد کردستند ایں گِل پارہا کہ بپوشانند خورشیدِ ترا اے حسام الدین! یہ حاسدین مٹی کے ڈھیلے ہیں، ان کے ارادے بُرے ہیں ، تجھے جو اللہ تعالیٰ نے تعلق مع اللہ کا سورج اور آفتاب بنایا ہے تو یہ چاہتے ہیں کہ اس پر مٹی ڈال دیں، یہ تیرا آفتابِ نسبت چھپانا چاہتے ہیں مگر یہ کامیاب نہیں ہوں گے۔ اسی طرح عشرت میاں یعنی میر صاحب کے لیے بھی میری مثنوی ’’مثنوئ اختر‘‘ میں میرا ایک شعر ہے، آپ دیکھیے گا ؎ جانِ عشرؔت عشرتِ جانِ من است جانِ او ہر لحظہ مستانِ من است بہر حال مولانا حسام الدین رحمۃاللہ علیہ مولانا رومی رحمۃاللہ علیہ کے ساتھ اخیر عمر تک رہے۔ جب ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار مکمل ہوگئے، سینکڑوں قصے بیان ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے اس مثنوی کے الہامی ہونے کے ثبوت کے لیے اپنے وارداتِ غیبیہ کو مولانا رحمۃاللہ علیہ کے قلب سے ہٹالیا تو مولانا رومی رحمۃاللہ علیہ سمجھ گئے کہ اب مثنوی کا اختتام ہو رہا ہے اور اللہ تعالیٰ آخری قصے کو ادھورا رکھنا چاہتے ہیں، لہٰذا فرمایا کہ ؎ چوں فتاد از روزنِ دل آفتاب ختم شد واللہ اعلم بِالصواب میرے قلب کے سامنے اللہ کے علم کا جو آفتاب مضامین القا کر رہا تھا وہ ڈوب گیا، لہٰذا اب مثنوی ختم ہوگئی۔ پھر اس کے بعد مولانا رومی رحمۃاللہ علیہ کا آفتاب بھی غروب ہوگیا اور ان کا انتقال ہوگیا، جنازے میں اتنا مجمع تھا کہ صبح انتقال ہوا تھا لیکن قبرستان پہنچتے پہنچتے شام ہوگئی اور شام کے وقت وہ دفن ہوئے۔