ہم جنس پرستی کی تباہ کاریاں اور ان کا علاج |
ہم نوٹ : |
حب کا لفظ بھی ادا نہیں ہوسکتا، محبت کے مادّہ ہی میں وصل ہے بس، جب دونوں ہونٹ ملیں گے تو محبت کا لفظ ادا ہوگا، لہٰذا جب کوئی شیخ سے محبت کرتا ہے تو شیخ بھی اس سے محبت کرتا ہے۔ مولانا رومی رحمۃاللہ علیہ کو حضرت حسام الدین رحمۃاللہ علیہ سے اتنا عشق ہوا اور اللہ پاک نے انہیں ا تنے مقام سے نوازا کہ مولانا رومی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اب ہم عام لوگوں کے مجمع میں تمہاری تعریف نہیں کیا کریں گے، کیوں کہ ہماری محبت سے تمہارے حاسدین پیدا ہوگئے ہیں۔ جب شیخ کسی کو زیادہ چاہتا ہے تو بعض نادان، مٹی کے ڈھیلے حسد شروع کردیتے ہیں، تو مولانا رومی رحمۃاللہ علیہ حضرت حسام الدین رحمۃاللہ علیہ سے فرماتے ہیں ؎ مدحِ تو حیف است با زندانیاں گویم اندر مجمعِ روحانیاں میں جو تم سے محبت کررہا ہوں یہ دیکھ کر کچھ لوگ تم سے حسد کر رہے ہیں، یہ زندانی ہیں، نفس کے قیدی ہیں، دنیا وی مریض ہیں، تم سے جل رہے ہیں، اے حسام الدین! تمہاری تعریف سے حاسدین لوگوں کو غم ہورہا ہے کہ مولانا رومی ان کو کیوں چاہتے ہیں، تو پھر اب میں تمہاری تعریف کہاں کروں گا؟ نااہلوں میں نہیں،اب میں کچھ اللہ والوں کو تلاش کروں گا، جو حسد سے پاک ہیں، جو روحانی غلاظتوں اور گندگیوں سے پاک ہوچکے ہیں، ان روحانی لوگوں میں تیری تعریف کروں گا، جو اللہ کے عاشق ہوں گے، جو رقابت اور جلن سے نکل چکے ہیں، ان کے مجمع میں تیری تعریف کروں گا، میں باز نہیں آؤں گا۔ شیخ مرید سے کہہ رہا ہے،دیکھو! یہ مرید کیسا مبارک اور خوش قسمت ہے،اسی لیے مولاناشاہ محمد احمد صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں ؎ یوں تو ہوتی ہے رقابت لازما ًعشاق میں عشقِ مولیٰ ہے مگر اس تہمتِ بد سے بَری کسی عورت کے دو عاشق ہوں تو دونوں میں چھری چل جاتی ہے، جیسے شاعر کہتا ہے ؎ نہ ملا غیر ہوگئی خیر ورنہ تلوار چل گئی ہوتی چاہتے وہ اگر تو میری دال ان کی محفل میں گل گئی ہوتی