ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2015 |
اكستان |
|
( ھٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ لِیَبْلُوَنِیْ ئَ اَشْکُرُ اَمْ اَکْفُرُ وَمَنْ شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہ وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیّ کَرِیْم ) (سُورة النمل : ٤٠) ''یہ میرے رب کا فضل ہے میری آزمائش کے لیے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری اور جو کوئی شکر کرے سو شکرکرے اپنے واسطے اور جو کوئی ناشکری کرے، سو میرا رب بے پرواہے کرم والا۔'' جب ملکہ بلقیس کے ہدایا واپس ہوئے تو وہ اپنے وزراء اور اُمراء سمیت حضرت سلیمان علیہ السلام کے دارُالحکومت بیت المقدس کا رُخ کر چکی تھی اُس نے حضرت سلیمان علی السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر اِعلانِ اِطاعت کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا، اُسے بالکل معلوم نہ تھا کہ اُس کا تخت حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچ چکا ہے جبکہ حضرت سلیمان علیہ السلام کویہ سب کچھ معلوم تھا اور آپ یہ بھی جانتے تھے کہ ملکہ بلقیس راستے میں ہے اُس کے پہنچنے سے پہلے آپ نے اپنے خدام سے فرمایا : (نَکِّرُوْا لَھَا عَرْشَھَا ) (سُورة النمل : ٤١) ''رُوپ بدل کر دِکھلادو اِس عورت کے آگے اُس کے تخت کا۔'' اُس کی کچھ نشانیاں اور ظاہری علامتیں بدل دو۔ کیوں ! ( نَنْظُرْ اَتَھْتَدِیْ اَمْ تَکُوْنُ مِنَ الَّذِیْنَ لاَ یَھْتَدُوْنَ)(سُورة النمل : ٤١ ) ''ہم دیکھیں سمجھ پاتی ہے یا اُن لوگوں میں ہوتی ہے جن کوسمجھ نہیں۔'' ملکہ بلقیس حضرت سلیمان علیہ السلام کی خدمت میں اُن کے دربار میں حاضر ہوئیں آپ نے بادشاہوں کی عادت کے موافق اُسے خوش آمدید کہا اور جب وہ بیٹھ چکی تو (قِیْلَ اَھٰکَذَا عَرْشُکِ) (سُورة النمل : ٤٢) ''کسی نے کہا کیا ایسا ہی ہے تیرا تخت ؟ '' اُس نے تخت کی جانب بغور دیکھا اور بولی : (کَاَنَّہ ھُوَ) ''گویا یہ وہی ہے۔''