ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2015 |
اكستان |
|
''ڈکٹیٹر '' کی حیثیت ؟ : اِسلام جبر و قہر کی اِجازت نہیںدیتا لیکن اگر کوئی اپنی طاقت کے بل بوتے پر سربراہ بن جائے تو مسلمان اُس کی قیادت تسلیم کر سکتے ہیں بشرطیکہ وہ فرائض کی اَدائیگی میں کوتاہی نہ کرے اور ایسے اَوصاف کا حامل ہو جوفرائض اَدا کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ نبی کا دیا ہوا نعرہ : آج دُنیا میں رُوس اور اَمریکہ کے درمیان سرد جنگ جاری ہے ،ہر ایک بلاک دُوسرے کو مرعوب کر رہا ہے، یہ میدان مسلمانوں سے خالی ہے۔ بین الاقوامی سیاست میں مسلمانوں اور اُن کی تمام مملکتوں کا شمار پسماندہ اَقوام میں ہوتا ہے، حاشا و کلا قرآنِ حکیم مسلمانوں کے لیے یہ ذلّت گوارا نہیں کرتا، قرآنِ پاک کی تلقین یہ ہے کہ ( کَلِمَةُ اللّٰہِ ھِیَ الْعُلْیَا ) آنحضرت ۖ نے مسلمانوں کو یہ نعرہ دیا تھا : اَلْاِسْلَامُ یَعْلُوْا وَلَا یُعْلٰی عَلَیْہِ اِسلام بلند ہو کر رہتا ہے ، یہ نہیں ہوتا کہ دُوسروں کو اِسلام پر بلندی حاصل ہو سائنسی اور ترقیاتی اُمور کے لیے سرمایہ کی فراہمی : سائنسی تحقیقات اور ترقی کا کام دُوسروں نے لے لیا، اِسی راستہ سے وہ دُنیا پر چھائے ہوئے ہیں او ر تمام دُنیا کو مرعوب کررہے ہیں ۔قرآنِ حکیم کی تعلیم اور آنحضرت ۖ کے اِرشاد کے بموجب اِسلامی حکومت کو ایسا بیدار مغز ہونا چاہیے کہ اِس میدان میں بھی اُس کا قد سب سے آگے رہے،وہ کسی کے دست ِنگر نہ رہیں، دُوسروں کو اُن کا دست ِ نگر رہنا چاہیے ،وہ اللہ کے سوا کسی دُوسرے سے خائف نہ ہوں ،دُوسروں پر اُ ن کی دَھاک رہنی چاہیے۔ (سورۂ توبہ آیت ٣٣١) اِس ترقی اور برتری کے لیے بہت زیادہ دولت کی ضرورت ہے، زکوة وصدقات اور عشر جو خوشحال مسلمانوں پر فرض ہوتے ہیں وہ ضرورت مند عیال دار، فقراء ومساکین کا حصہ ہے، اُن کی رقومات اِن مدات پر ہی خرچ کی جائیں گی، ترقی اوراِستحکامِ قوت کے مدات پر خرچ نہیں ہوسکتیں۔