ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2015 |
اكستان |
|
تابع نہیں ہو سکتی کیونکہ ہم جمہوریت کے ثنا خواں و مدَّاح اِس لیے ہوتے ہیں کہ اِس میں عوام کو آزادی میسر آتی ہے، رائے کی آزادی، فکر کی آزادی، تحریر کی آزادی، تقریر کی آزادی، مطلق العنان حریت یعنی بے لگام آزادی حالانکہ کوئی بھی مذہب اِس مطلق العنان بے لگام اور منہ چُھوٹ آزادی کی اِجازت نہیں دے سکتا۔ ہر ایک مذہب اَخلاق کا طوقِ زریں اِنسان کے گلے میں ڈالتا ہے اُس کااصل اُصول ہوتا ہے پابندی ،فرمانبرداری،ضبط و کنٹرول ،اِیثار وقربانی اِس کے برعکس مطلق العنان آزادی جو جمہوریت کا طرۂ اِمتیازمانی جاتی ہے رفتہ رفتہ آوارگی کی شکل اِختیار کر لیتی ہے۔ آپ تحقیق فرمائیں تو مہذب ترین جمہوری ممالک کاروباری ضابطوں اور قاعدوں میںخواہ کتنے ہی با اُصول ہوں مگر اَخلاق، کردار، رُوحانیت، خوفِ خدا اور خدا پرستی کے لحاظ سے وہ آوارہ اور شورہ پُشت ١ ہیں۔ بے شک جمہوریت کا یہ رُخ قابلِ قدر ہے کہ اُصولاً ایک فرقہ کو دُوسرے پرمسلط نہیں کرتی اگرچہ عملاً اِس سے نجات بھی نہیں مِل سکتی کیونکہ اکثریت اگر کسی ایک فرقے سے تعلق رکھتی ہے تووہ لامحالہ اپنی چھاپ جمہوریت پر ڈال دیتی ہے یہاں تک کہ وہ یہ سمجھنے لگتی ہے کہ جمہوریت کے معنی ہیں اکثریت کے ہم رنگ ہونا۔ فریب نظر اور طلسم : جمہوریت اور ڈیموکریسی کے ثنا خواں جمہوریت کی خوبی یہ بیان کرتے ہیں کہ جمہوریت میں اِقتدارِ اَعلیٰ جمہور کو حاصل ہوتا ہے، حکومت جمہور کی ہوتی ہے، اَصل اِختیارات جمہور کو حاصل ہوتے ہیں وہ اپنے لیے اپنی مرضی کے مطابق دستورِ اَساسی (Constitution) اور قانون تجویز کر سکتے ہیں لیکن حقیقت پسندانہ نظر ڈالی جائے تو یہ تمام الفاظ طلسم اور جادُو کے منتر سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے جو دماغوں کو مسحور ضرور کر لیتے ہیں مگر حقیقت اور واقعیت سے آشنا نہیں ہوتے۔جمہور کے پاس ووٹ کی طاقت ضرور ہوتی ہے مگر کیا اِس حقیقت سے اِنکار ہو سکتا ہے کہ جس طرح گری نکال دینے کے بعد بادام ١ سرکش ،نافرمان،جھگڑالو