ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2015 |
اكستان |
|
بخل کرتے ہیں تو اپنے ( مفاد) سے بخل کر رہے ہیں، اللہ کو ضرورت نہیں وہ بے نیاز ہے۔(اعلیٰ تعلیم، ترقی پذیر تربیت، سائنسی اِیجادات وترقیات یہ تمہاری ضرورتیں ہیں ) تم ہی ضرورت مندہو (خود تمہاری باعزت بقا ء کے لیے اِن کی ضرورت ہے) اگر تم منہ موڑتے ہو تو تم ختم ہوجاؤ گے اللہ تمہارے بدلہ میں کسی دُوسری قوم کو کھڑا کرے گا جو تم جیسی تن آسان، فرض شناس اور مفاد پرست نہیں ہوگی۔ '' سورۂ بقرہ میں جنگ وقتال کے متعلق ہدایات دینے کے بعد اِرشاد ہے : ''خرچ کرو اللہ کے راستہ میں اور نہ ڈلوا اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں بربادی اور ہلاکت میں۔'' (سورۂ بقرہ آیت ١٩٥) قرآنِ حکیم میں اِس ''اِنفاق فی سبیل اللہ'' کو ''قرض ِحسن'' سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ گویا قومی یا ملی فرض ہوتا ہے ۔ خسارہ بڑھانے والا آمدنی کا ایک مَد : ہماری حکومتیں بھی قومی یا جنگی قرض لیتی ہیں جن کا سود بھی اَدا کرتی ہیں مگر اِس سود کے نتیجہ میں اِس قومی اور جنگی قرضوں کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ دولت مند جو قرض دینے والے ہیں اُن کی دولت بڑھ جاتی ہے اور اُس تمام قرض کا بار ملک کے تمام غریب ٹیکس دینے والوں پر پڑتاہے۔ دولتمند یہ قرض دے کر بظاہر قوم کی خدمت کر رہاہے لیکن فی الحقیقت قوم کا خون چوس رہا ہے اور اپنی اَمیری بڑھا رہا ہے۔ وہ قرض جس کا بار عوام پر نہ پڑے : قرآنِ حکیم جس قرض کا مطالبہ کر تا ہے اُس کا کوئی بار غریب اور محنت کش طبقہ پر نہیں پڑتا، صرف دولتمند پر اِس کا بار پڑتا ہے، اُسی کی گرہ میں سے اُس کی خالص پونجی خرچ ہوتی ہے اگرچہ یہ وعدہ بھی ہے کہ ''تم کو پورا پورا اَدا کیاجائے گااور تم پر ظلم نہیں ہوگا۔'' (سورہ اَنفال آیت ٦٠) اِس پورا پورااَدا کرنے کی شکل یہ ہے کہ ترقیات کے مفادات سے یہ دولتمند بھی بہرہ اَندوز