ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2015 |
اكستان |
|
ام کا خیر خواہ، مختلف طبقات کے مزاجوں سے واقف ہونے کے علاوہ اہم شرط یہ ہے کہ اُس میں عدل ہو یعنی پابند ِ شرع ہو،اِسلامی اَخلاق کا حامل ہو، کبائر کا مرتکب نہ ہوتا ہو، بتقاضائے بشریت گناہ ہو جائیں تو فورًا توبہ کرلے، کسی گناہِ صغیرہ کا بھی عادی نہ ہو، عالم ہو اور اِسلامی علوم میں بصیرت رکھتا ہو۔ (اِزالة الخفائ، حجة اللہ البالغہ و شرح عقائد نسفی وغیرہ) وزیرِ اعظم کی جو حیثیت ہندوستان جیسے آج کے جمہوی ممالک میں ہے کہ پارلیمنٹ یا اسمبلی میں جس سیاسی پارٹی کو اَکثریت حاصل ہو اُس کا لیڈر وزیر اعظم یا چیف منسٹر ہو، اِسلامی تعلیمات میں اِس طرز کی اگر ممانعت نہیں کی گئی تو اِس کی ہدایت بھی نہیں کی گئی جمہوریت پر ایک نظر : کوئی بھی موسم ہو اُس میں اُس موسم کے خاص پھل کی بہار ہوتی ہے، زبانوں پر اُس کا تذکرہ ہوتا ہے، دِلوں میں اُس کی رغبت اور خواہش، بازار اور منڈیوں میں اُس کی کثرت ہوتی ہے۔ تجربہ نے چہرہ ٔ جمہوریت کے خوشنما اور دلکش غازہ ١ کو بڑی حد تک کُھرچ دیا ہے مگر تقریبًا چالیس سال پہلے کا دور وہ تھا جس میں یورپ کی اِستعمار پسند حکومتیں دُنیا پر چھائی ہوئی تھیں وہ دور تصور ِ جمہوریت کا موسمِ بہار تھا، شکنجہ ٔ اِستعمار میں کسی ہوئی قوموں کے مضطرب جذبات تصورِ جمہوریت کا اِستقبال کررہے تھے اور یہ تصور اہلِ دانش، اہلِ نظر اور اَصحابِ فکر کی عقل و دانش پر یہاں تک چھایا ہوا تھا کہ وہ کھینچ تان کر اِسلام کو بھی اپنی ہی صف میں کھڑا کرنا چاہتے تھے کہ جمہوریت کے جس تخیل کو وہ متاعِ بے بہاء سمجھ رہے ہیں اِسلام بھی اُس کی تعلیم دیتا ہے اور بازارِ سیاست میں اُس کا خریدار ہے۔ کوئی بھی مذہب جمہوریت کو پسند نہیں کرتا : لیکن اگر ہم جذبات سے بالا ہو کر حقیقت کو سامنے رکھیں تو حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی مذہب جمہوریت کی موافقت نہیں کرسکتا جس طرح جمہوریت اگر صحیح معنی میں جمہوریت ہے تو وہ مذہب کے ١ ظاہری خوشنمائی