ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2015 |
اكستان |
|
ہوں گے چنانچہ جن صحابہ کرام نے اِرشاد ِخدا وندی کی تعمیل کرنے کے لیے خرچ کیا تھا اُن میں سے بہت سے وہ بھی تھے کہ ثوابِ آخرت کے علاوہ دُنیا میں بھی اُن کو پورا پورا بلکہ پورے سے بھی بہت زیادہ اَدا کردیا گیا۔ اِسلامی قرض کا مادّی اور رُوحانی فائدہ : حضرت زُبیر بن العوام رضی اللہ عنہ کی حالت اِبتداء ِزمانہ میں یہ تھی کہ اِن کی اہلیہ محترمہ حضرت اَسماء رضی اللہ عنہا اُونٹ کے چارے اور چولہے کے سوختے ١ کے لیے گٹھلیوں وغیرہ کا بارُدوتین میل فاصلہ سے خود اپنے سر پر رکھ کر لایا کرتی تھیں مگر تیس سال بعد جب وہ شہید ہوگئے تواِن کا ترکہ پانچ کروڑ سے زیادہ کا تھا جو قطعاً جائز اور پاک آمدنی سے حاصل ہوا تھا جبکہ تمام غزوات میں پیش پیش رہے تھے اور کروڑوں درہم راہِ خدا میں خرچ کیے تھے۔ (بخاری شریف ص ٤٤١، ٤٤٢) اور پورا پورا اَدا کرنے کی دُوسری شکل یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں اُن کے مدارج اِتنے بڑھائے جائیں کہ اَندازہ لگانا مشکل ہو اور اُس زمرہ میں ہوں جن کواللہ تعالیٰ نے اَنبیاء علیہم السلام کی طرح مُنْعَمْ عَلَیْہِمْ فرمایا ہے اور اُن کو اَبدی حیات کی بشارت دی ہے۔ بہرحال اِس قرض کی اَدائیگی باشندگانِ ملک کی جیب سے نہیں ہوگی، اَرکانِ شوریٰ کا فرض ہوگا کہ اِسلامی مملکت کی ترقی پذیر ضرورتوں کا جائزہ لیں اُن کا بجٹ بنائیں بجٹ کو پورا کرنے کے لیے قرضِ حسن حاصل کریں۔ دولتمندوں کا فرض ہوگا جو اُن کے ذمے کیا جائے وہ اِس کو خوش دلی سے اَدا کریں، یہ اُن کے لیے ذخیرہ ٔ آخرت ہوگا، زکوة کی طرح اُس کی اَدائیگی بھی فرض ہوگی اور زکوة کی طرح اُس کا ثواب بھی پیش اَز پیش ہوگا جس کی تائید بے شمار آیات اور اَحادیث سے ہوتی ہے۔ ١ اِیندھن