ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2015 |
اكستان |
|
ئے تو اُن(کے بارے) میں آگیا قرآنِ پاک میں (لَانُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِہ) کسی رسول میں ہم تفریق نہیں کریں گے کہ اُسے زیادہ اور اِسے کم نبی مانیں نبی سب کو ایک درجے کا ماننا پڑے گا لیکن (تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ) یہ بھی ہے، بعض اَنبیائے کرام کو بعض پر اللہ نے فضیلت دی ہے وہ ذکر بھی فرمائی گئی ہے حدیثوں میںبھی آئی ہے لیکن ہمارا تو اِیمان سب پر ہے جو نبی ہے جسے ہم جانتے ہیں اور بیشتر وہ ہیں جنہیں نہیں جانتے چند کو جانتے ہیں جن کے اَسمائے گرامی آئے ہیں اَحادیث میں یا قرآنِ پاک میں یا تاریخ کی کتابوں میں باقیوں کا تو پتہ ہی نہیں چلتا،تو ہمارا اُن پر اِیمان ہے۔اُن کا اِیمان کیسا تھا ؟ وہ بالغیب رہا نہیں، اُن کووہ چیزیں نظر آتی تھیں ،جناب ِ رسول اللہ ۖ نماز پڑھا رہے تھے اور اِرشاد فرمایا کہ ابھی ابھی جنت اور جہنم میرے سامنے آئے اور فرمایا کہ میں اگر خوشہ لے لیتا جنت کا تو تم کھاتے رہتے (مَابَقِیَةِ الدُّنْیَا) جب تک دُنیا رہتی کیونکہ جنت کی چیزوں کو فنا نہیں ہے تو وہ فنا نہ ہوتی وہ قائم بھی رہتی کھاتے بھی رہتے اور اِس میںکوئی بات غلط نہیں اور تمام(غیبی) باتوں کا جوڑ آپ نے اُن باتوں سے لگادیا تھا جو بعد میں وجود میں آتی رہیں گی ،کچھ صحابہ کرام نے دیکھ لیں اور کچھ صحابہ کرام خبر دے گئے اور دُنیا سے چلے بھی گئے وہ بعد میں دُوسروں نے دیکھ لیں، تمام چیزیں جو آپ نے فرمائیں اُن میں نہ جھوٹ ہے نہ مبالغہ ہے نہ غلطی ہے سب کی سب سچ اور صحیح۔ تو رسول اللہ ۖ کو اور دیگر تمام اَنبیائے کرام کو جو اِیمان کی کیفیت عطا ہوئی تھی وہ وہبی بھی تھی قدرتی تھی نبوت کی تھی اور وہ اِیمان بالغیب سے اُوپر کا درجہ ہے جیسے فرشتوں کا اِیمان کہ وہ کبھی متزلزل نہیں ہوسکتا اُس میں شک نہیں آسکتا تردّد نہیں آسکتا اُنہیں نظر آتا تھا،جو نظر آتی ہو چیز اُس میں کسے تردّد ہوتا ہے آپ کو نظر آجائے تو آپ کو تردّد نہیں رہتا، اُس چیز میں قسم بھی کھالیتے ہیں دُوسروں کو بھی بتاتے ہیں اِطمینان سے بتاتے ہیں کیفیات بتاتے ہیں تفصیلات بتاتے ہیں۔ ''تقدیرات'' دائرہ عقل سے باہر ہیں حل نہیں ہو سکتیں بس اِیمان لانا کافی ہے : اور رسول اللہ ۖ وہ چیزیں ایسے بیان فرماتے ہیں جیسے کہ ہو چکی ہوں کیونکہ اُن میں کوئی