ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2015 |
اكستان |
|
رسول اللہ ۖ نے ایک اور حدیث میں لوگوں کی اِصلاح و ہدایت کے کام کی اہمیت کو ایک عام فہم مثال کے ذریعہ بھی سمجھایا ہے، آپ ۖ کے اِرشاد کا خلاصہ یہ ہے کہ : ''فرض کرو ایک کشتی ہے جس میں نیچے اور اُوپر درجے ہیں، اور نیچے کے درجے والے مسافروں کو پانی اُوپر کے درجے سے لانا پڑتا ہے جس سے اُوپر والے مسافروں کو تکلیف ہوتی ہے اور وہ اُن پر ناراض ہوتے ہیں، تو اگر نیچے والے مسافر اپنی غلطی اور بے وقوفی سے نیچے ہی سے حاصل کرنے کے لیے کشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کرنے لگیں اور اُوپر کے درجہ والے اُن کو اِس غلطی سے روکنے کی کوشش نہ کریں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ کشتی سب ہی کو لے کر ڈوب جائے گی اور اگر اُوپر والے مسافروں نے سمجھا بجھا کر نیچے کے درجے والوں کو اِس حرکت سے روک دیا تو وہ اُن کو بھی بچالیں گے اور خود بھی بچ جائیں گے۔ حضور ۖ نے فرمایا بالکل اِسی طرح گناہوں اور برائیوں کا بھی حال ہے اگر کسی جگہ کے لوگ جہالت کی باتوں اور گناہوں میں مبتلاہوں اور وہاں کے نیک اور سمجھ دار قسم کے لوگ اُن کی اِصلاح و ہدایت کی کوشش نہ کریں تو نتیجہ یہ ہوگا کہ اُن گناہگاروں اور مجرموں کی وجہ سے خدا کا عذاب نازل ہوگا اور پھر سب ہی اُس کی لپیٹ میں آجائیں گے اور اگر اُن کو گناہوں اور برائیوں سے روکنے کی کوشش کرلی گئی تو پھر سب ہی عذاب سے بچ جائیں گے۔'' ایک حدیث شریف میں ہے حضور ۖ نے بڑی تاکید کے ساتھ اور قسم کھا کر فرمایا : ''اُس اللہ کی قسم ! جس کے قبضہ میں میری جان ہے، تم اچھی باتوں اور نیکیوں کو لوگوں سے کہتے رہو اور برائیوں سے اُن کو روکتے رہو، یاد رکھو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو بہت ممکن ہے کہ اللہ تم پر کوئی سخت قسم کا عذاب مسلط کردے اور پھر تم اُس سے دُعائیں کرو اور تمہاری دُعائیں بھی اُس وقت نہ سنی جائیں۔''