ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2015 |
اكستان |
|
بائی لاز (By Laws) اور ضمنی قوانین کی حیثیت دی گئی۔ اِسلامی نظامِ حکومت کا مقصد : دستور اَساسی (کتاب اللہ وسنت رسول اللہ) اور عدالت ِ عالیہ کے بعد معاملہ صرف نفاذ کا رہ جاتا ہے جس کے لیے اِنتظامی عملہ کی ضرورت ہے مقننہ ١ کی نہیں، اِسلامی حکومت کا پورا نظام اِس لیے ہوتا ہے کہ قانونِ اِسلامی کونافذ کرے اورجو حکومت اِس مقصد کے لیے ہو وہی اِسلامی حکومت ہے۔ تشکیلِ حکومت اور سربراہ ِ مملکت : قرآنِ حکیم یا اَحادیث ِ مقدسہ نے تشکیل ِحکومت کے لیے کوئی خاص ضابطہ مقرر نہیں کیا ہے صرف ایک بنیادی تعلیم دی ہے کہ سربراہ کا تقرر نسل اورخاندان کی بناء پر نہ ہو، اہلیت اور صلاحیت کی بناء پر ہو، یہ سربراہ کس طرح بنایا جائے کتاب و سنت نے اِس کو بھی موضوعِ بحث نہیں بنایا اَلبتہ سربراہ کے اَوصاف بیان کردیے ہیں اور اُس کے فرائض مقرر کردیے ہیں۔ اَب (١) اِسلامی مملکت کا سربراہ عوام کی آراء سے بھی منتخب کیا جاسکتا ہے، شرط یہ ہے کہ مدار ِ اِنتخاب وہ اَوصاف ہوں جو اِسلامی مملکت کے سربراہ میں ہونے چاہئیں جو آغاز ِ مضمون میں بیان کیے گئے ہیں۔ (٢) یہ بھی ہوسکتاہے کہ سربراہ جو اِن اَوصاف کا حامل ہو اِنتخاب کے قصہ میں نہ پڑے اور خود اپنی جانب سے اپنا کوئی ایسا قائم مقام نامزد کردے جو اِن اَوصاف کا حامل ہو اور عوام میں متعارف ہو۔ (٣) یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سربراہ جو اَوصاف ِ سربراہی کا صحیح طور پر حامل ہو اپنی جانب سے کچھ اہل الرائے حضرات کو نامزد کردے کہ وہ آئندہ کے لیے کوئی سربراہ نامزد کردیں جو اَوصافِ سربراہی سے متصف ہو۔ ١ قانون ساز اِدارہ یا اَفراد