ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2015 |
اكستان |
|
دستور ِ اَساسی : اِسلامی نقطۂ نظر سے قرآنِ حکیم دستورِ اِساسی ہے جس کی تشریح آنحضرت ۖ کے اِرشادات پھر حضراتِ خلفائے راشدین کے طریقہ ہائے کار اور جماعت ِ صحابہ کے طرز ِ عمل نے کی، اِسی کا نام '' اَلشَّرِیْعَةُ '' '' اَلدِّیْنُ '' اور '' اَلسُّنَّةُ '' ہے۔ اِسی دستورِ اَساسی کی موجود گی میں کوئی اور دستور وضع نہیں کیا جائے گا اَلبتہ پیش آنے والے معاملات کے مطابق اِسی دستور کے اُصولِ مسلمہ سے ضابطے اور قاعدے اَخذ کیے جائیں گے اور اُن کی روشنی میں معاملات کے فیصلے ہوں گے۔ مجلس ِآئین ساز کے بجائے عدالت ِعالیہ : اپنی جان، اپنا مال، غیر کی جان اور اُس کا مال، رشتہ دار، پڑوسی، شہری، ملکی غیر ملکی، غیر مسلم وغیرہ کے حقوق، فرائض و جرائم کی حیثیت، اُن کی سزائیں، جنگ و صلح کے بنیادی ضابطے، خرید وفروخت، ہبہ، عاریت، اِجارہ، تحفظِ نسل، اَزدواجی تعلقات وغیرہ کے ضابطے اور اُصول قرآنِ حکیم اور سنت ِ نبویہ (علیٰ صاحبہا الصلوة والسلام) نے مقرر کر کے نوعِ اِنسان کو وضع دستور اور قانون سازی کی اُلجھنوں سے آسودہ اوراُس کی ذمہ داریوں سے سبکدوش کردیا ہے، صرف وہ کام باقی ہے جوکسی قانون کے پیش ِ نظر عدالت کو کرنا پڑتا ہے۔پیش آنے والے معاملات میں ہماری عدالتیں، پارلیمنٹ یااِسمبلی وضع کردہ دستور یا قانون کو تلاش کرتی ہیں، اُس کا منشاء سمجھتی ہیں اور اُس کی رہنمائی میں فیصلہ کرتی ہیں، اِسلامی عدالتیں قرآن و سنت کی روشنی میں فیصلہ کریں گی۔ اَراضی کی ملکیت، ملکیت کی نوعیت، واجبات یعنی پیداوار کے سلسلے میں سرکاری مطالبات، اُفتادہ اَراضی، کانوں اور چشموں کی حیثیت، پہاڑ، دریا، اُن کی قدرتی پیداوار وغیرہ کے متعلق سوالات پیدا ہوئے۔ اِمام اَبو یوسف رحمہ اللہ نے کتاب اللہ اور سنت ِ رسول ۖ کی روشنی میں ایک مجموعہ قانون مرتب کردیا جو''کتاب الخراج'' کے نام سے مشہور ہے، خلافت ِ عباسیہ کے دورمیں اِسی نے آئین کی حیثیت اِختیار کرلی، پیش آنے والے سوالات کے متعلق مجلس ِ قانون ساز کی ضرورت نہیں ہوئی بلکہ اُسی آئین کے مضمرات سے جوابات اَخذ کیے گئے اور اُن ہی کو