ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2015 |
اكستان |
|
''میں بھیجتی ہوں اُن کی طرف کچھ تحفہ پھر دیکھتی ہوں کیا جواب لے کر آتے ہیں بھیجے ہوئے۔'' مشاورین نے بلقیس کی تدبیر کی موافقت کی چنانچہ اُنہوں نے مال اور نفیس جواہرات کا ایک بہت بڑا تحفہ تیار کیا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کی طرف بھیجا۔ پیارے بچو ! آپ کے خیال میں حضرت سلیمان علیہ السلام کی ذات پر اِس تحفہ نے کیا اَثر ڈالا ہوگا ؟ یقینا اگر حضرت سلیمان علیہ السلام دُنیا کے بادشاہوں کی طرح ایک بادشاہ ہوتے تو طبعی طور پر آپ دولت و سلطنت کو محبوب رکھتے اور اِس تحفے سے خوش ہوتے لیکن حضرت سلیمان علیہ السلام دُوسری قسم کے بادشاہ تھے آپ بشری مادّیات سے فوق تر اور اعلیٰ جواہرات اور سونے چاندی کی ہوس سے بالا تر تھے، آپ تو نوعِ رسالت سے متعلق تھے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے آپ کو رسالت و نبوت عطا فرمائی تھی جب تحائف لانے والے اپنے تحائف سے خوش ہوتے ہوئے بیت المقدس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے پاس پہنچے تو آپ نے اُن سے فرمایا : ( اَتُمِدُّوْنَنِ بِمَالٍ فَمَآ اٰتٰنِیَ اللّٰہُ خَیْر مِّمَّا اٰتٰکُمْ بَلْ اَنْتُمْ بِھَدِیَّتِکُمْ تَفْرَحُوْنَ) ١ ''کیا تم میری اِعانت کرتے ہو مال سے، سو اللہ نے جو مجھ کو دیا ہے بہتر ہے اُس سے جو تم کو دیا ہے بلکہ تم ہی اپنے تحفہ سے خوش رہو۔'' آپ نے ہدیہ لُٹا دیا اور اُنہیں زَجرو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا : ( اِرْجِعْ اِلَیْھِمْ فَلَنَاْتِیَنَّھُمْ بِجُنُوْدٍ لَّا قِبَلَ لَھُمْ بِھَا وَلَنُخْرِجَنَّھُمْ مِّنْھَا اَذِلَّةً وَّھُمْ صَاغِرُوْنَ) (سُورة النمل : ٣٧) ''لوٹ جاؤ اُن کے پاس، اب ہم پہنچتے ہیں اُن پر ایسے لشکر وں کے ساتھ جن کا مقابلہ نہ ہوسکے اُن سے ،اور نکال دیں گے اُن کو وہاں سے بے عزت کر کے اور وہ خوار ہوں گے۔ '' ١ سُورة النمل : ٣٦