ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2015 |
اكستان |
تو پھر عام دُنیا اِسلام ہی کو برا جانے گی اور پھر اُن کو اِسلام کی دعوت اگر دی بھی جائے گی تو اُس کا کوئی اَثر نہ ہوگا۔ پس دُوسروں میں اِسلام کی دعوت کا کام بھی اِسی پر موقوف ہے کہ مسلمان اُمت میں اِسلامی زندگی یعنی اِیمان اور عملِ صالح عام ہو۔ بہرحال اِس لحاظ بھی یہی ضروری ہے کہ پہلے مسلمانوں ہی کی اِصلاح و ہدایت کی فکر کی جائے اور اُن میں دینی زندگی کو عام کرنے کے لیے پوری قوت سے جدو جہد کی جائے۔ قرآن شریف میں اِس کام کو (یعنی دین کی خدمت و دعوت اور لوگوں کی اِصلاح و ہدایت کی کوشش کو) جہاد بھی کیا گیا ہے بلکہ ''جہادِ کبیر'' یعنی بڑا جہاد بتلایا گیا ہے ١ اور اِس میں کچھ شبہ نہیں کہ اگر یہ کام خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ اور محض اللہ کی رضا مندی کے لیے کیا جائے تو یقینا اللہ کے نزدیک یہ بہت بڑا جہاد ہے۔ بہت سے لوگ سمجھتے ہیں کہ جہاد صرف اُس جنگ کا نام ہے جو دینی اُصول و اَحکام کے مطابق اللہ کے راستے میں لڑی جائے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ دین کی دعوت اور بندگانِ خدا کی اِصلاح و ہدایت کے لیے جس وقت جو کوشش کی جاسکتی ہو وہی اُس وقت خاص جہاد ہے۔ رسول اللہ ۖ نبوت کے بعد تقریبًا بارہ تیرہ برس مکہ معظمہ میں رہے اِس پوری مدت میں آپ کا اور آپ کے ساتھیوں کا جہاد یہی تھا کہ مخالفتوں اور طرح طرح کی مصیبتوں کے باوجود خود دین پر مضبوطی سے جمے رہے اور دُوسروں کی اِصلاح و ہدایت کی کوشش کرتے رہے اور بندگانِ خدا کو خفیہ وعلانیہ دین کی دعوت دیتے رہے۔ اَلغرض اللہ سے غافل اور راستے سے بھٹکے ہوئے بندوں کو اللہ سے مِلانے کی اور صحیح راستے پر چلانے کی کوشش کرنا اور اُس راہ میں اپنا پیسہ خرچ کرنا اور وقت اور چین وآرام قربان کرنا یہ سب اللہ کے نزدیک ''جہاد'' ہی میں شمار ہے بلکہ اُس وقت کا ''خاص جہاد'' یہی ہے۔ ١ سورۂ فرقان کی آیت (وَجَاھِدْ ھُمْ بِہ جِھَادًا کَبِیْرًا) کے متعلق مفسرین کی عام رائے یہی ہے کہ اِس سے تبلیغ ودعوت مراد ہے۔