ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2015 |
اكستان |
مومن و مسلم ہوں، نیکیاں کرتے ہوں اور برائیوں سے بچتے ہوں۔ ایسی حالت میں ہمارا سب سے مقدم فرض یہ ہے کہ دین کی دعوت اور اِصلاح و ہدایت کا کام پہلے اِس اُمت ہی کے اُن طبقوں میں کیا جائے جو دین و اِیمان اور نیکی و پرہیزگاری کے راستے سے دُور ہوگئے ہیں۔ اِس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ جو لوگ اپنے کو مسلمان کہتے اور کہلاتے ہیں خواہ اُن کی عملی حالت کیسی ہی ہو وہ بہرحال اِیمان واِسلام کا اِقرار کر کے خدا ورسول اور اُن کے دین کے ساتھ ایک قسم کا رشتہ اور ایک طرح کی خصوصیت پیدا کر چکے ہیں اور اِسلامی سوسائٹی اور برادری کے ایک فرد بن چکے ہیں،اِس واسطے ہمارے لیے اُن کی اِصلاح و تربیت کی فکر بہرحال مقدم ہے جس طرح کہ قدرتی طور سے ہر شخص پر اُس کی اَولاد اور اُس کے قریبی رشتہ داروں کی خبر گیری اور دیکھ بھال کی ذمہ داری بہ نسبت دُوسرے لوگوں کے زیادہ ہوتی ہے۔ اور ایک دُوسری وجہ یہ بھی ہے کہ دُنیا کے عام لوگ مسلمانوں کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئے اِسلام کی خوبی اور بہتری کو کبھی نہیں سمجھ سکتے بلکہ اُلٹے اُس سے متنفر اور بیزار ہوتے ہیں، ہمیشہ سے عام لوگوں کا یہی طریقہ رہا ہے اور اب بھی یہی طریقہ ہے کسی دین کے ماننے والوں کی حالت اور اُن کے اَعمال واَخلاق دیکھ کر ہی اُس دین کے متعلق اچھی یا بری رائے قائم کی جاتی ہے، جس زمانہ تک مسلمان عام طور سے سچے مسلمان ہوتے تھے اور پوری طرح اِسلام کے اَحکام پر چلتے تھے، دُنیا کے لوگ صرف اُن کو دیکھ دیکھ کے اِسلام کے گرویدہ ہوتے تھے او رعلاقے کے علاقے اور قومیں کی قومیں اِسلام میں داخل ہوتی تھیں لیکن جب سے مسلمانوں میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہوگئی جو اپنے کو مسلمان تو کہتے ہیں مگر اُن کے اَعمال اور اَخلاق اِسلامی نہیں ہیں اور اُن کے دِل اِیمان اور تقویٰ کے نور سے خالی ہیں اُس وقت سے دُنیا اِسلام ہی سے بد ظن ہوگئی ہے۔ بہرحال ہمیںاِس حقیقت کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ مسلمان اُمت کا طرزِ زندگی اور مسلمان قوم کی عملی حالت ہی اِسلام کے حق میں سب سے بڑی شہادت اور گواہی ہے اور اگر اچھی ہوگی تو دین اِسلام کے متعلق اچھی رائے قائم کرے گی اور خود بخود اُس کی طرف آئے گی اور اگر وہ بری ہوگی