ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2015 |
اكستان |
|
اِس کام کے کرنے والوں کو آخرت میں جو اَجر و ثواب مِلنے والا ہے اور نہ کرنے والوں کے لیے اللہ کی لعنت و غضب کے جو خطرے ہیں اُن کا کچھ اَندازہ مندرجہ ذیل حدیثوں سے ہو سکتا ہے۔ حضرت اَبوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ۖ نے فرمایا : ''جو شخص لوگوں کو صحیح راستے کی دعوت دے اور نیکی کی طرف بلائے تو جو لوگ اُس کی بات مان کر جتنی نیکیاں اور بھلائیاں کریں گے اور اُن نیکیوں کا جتنا ثواب اُن کرنے والوں کو مِلے گا اُتنا ہی ثواب اُس شخص کو بھی مِلے گا جس نے اُن کو نیکی کی دعوت دی اور اِس کی وجہ سے خود نیکی کرنے والوں کے اَجرو ثواب میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ '' اِس حدیث سے معلوم ہواکہ اگر بالفرض آپ کی دعوت اور کوشش سے دس بیس آدمیوں کی بھی اِصلاح ہوگئی اور وہ خدا ورسول کو پہچاننے لگے اور دینی اَحکام پر چلنے لگے نمازیں پڑھنے لگے اور اِسی طرح دُوسرے فرائض اَدا کرنے لگے اور گناہوں اور بری باتوں سے بچنے لگے تو اِن چیزوں کا جتنا ثواب اُن سب کو مِلے گا اُس سب کے مجموعے کے برابر تنہا آپ کو مِلے گا۔ اگر آپ غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اِس قدر اَجرو ثواب کمانے کا کوئی دُوسرا راستہ ہے ہی نہیں کہ ایک آدمی کو سینکڑوں آدمیوں کی عبادتوں اور نیکیوں کا ثواب مِل جائے۔ ایک دُوسری روایت میں ہے رسول اللہ ۖ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا : ''اے علی ! قسم اللہ کی اگر تمہارے ذریعہ ایک شخص کو بھی ہدایت ہو جائے تو تمہارے حق میں یہ اِس سے بہتر ہے کہ بہت سے سُرخ اُونٹ تمہیں مِل جائیں (واضح رہے اہلِ عرب سُرخ اُونٹوں کو بہت بڑی دولت سمجھتے تھے)۔'' در حقیقت اللہ کے بندوں کی اِصلاح و ہدایت اور اُن کو نیکی کے راستے پر لگانے کی کوشش جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیا بہت اُونچے درجے کی خدمت اور نیکی ہے اور اَنبیاء علیہم السلام کی خاص وراثت اور نیابت ہے پھر دُنیا کی کسی بڑی سے بڑی دولت کی بھی اِس کے مقابلہ میں کیا حقیقت ہوسکتی ہے۔