ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اپریل 2015 |
اكستان |
|
ذمہ داری ہمیشہ کے لیے اب حضور ۖ کی اُمت کے سپرد کردی گئی ہے اور در اصل اِس اُمت کی یہ بہت بڑی فضیلت ہے بلکہ قرآن شریف میں اِسی کام اور اِسی خدمت و دعوت کو اِس اُمت کے وجو د کا مقصد بتلایا گیا ہے گویا کہ یہ اُمت پیدا ہی اِس کام کے لیے کی گئی ہے، اِرشاد ہے : (کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ) (سُورة اٰل عمران : ١١٠) ''اے اُمت ِمحمد (ۖ ) تم ہو وہ بہترین جماعت جو اِس دُنیا میں لائی گئی ہے اِنسانوں کی اِصلاح کے لیے ،تم کہتے ہو نیکی کو اور روکتے ہو برائی سے اور سچا اِیمان رکھتے ہو اللہ پر۔ '' اِس آیت سے معلوم ہوا کہ یہ اُمت ِمحمدیہ دُنیا کی دُوسری اُمتوں اور جماعتوں میں اِس لحاظ سے ممتاز اور افضل تھی کہ خود اِیمان اور نیکی کے راستے پر چلنے کے علاوہ دُوسروں کو بھی نیکی کے راستے پر چلانے اور برائیوں سے بچانے کی کوشش کرنا اُس کی خدمت اور خاص ڈیوٹی تھی اور اِسی لیے اِس کو ''خَیْرَ اُمَّةٍ '' قرار دیا گیا تھا۔ اِسی سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ یہ اُمت اگر دین کی دعوت اور لوگوں کی اِصلاح و ہدایت کا یہ فرض اَدا نہ کرے تو وہ اِس فضیلت کی مستحق نہیں بلکہ سخت مجرم اور قصور وار ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِتنے بڑے کام کی ذمہ داری اِس کے سپرد کی اور اِس نے اِس کو پورا نہیں کیا، اِس کی مثال بالکل ایسی ہے کہ کوئی بادشاہ سپاہیوں کے کسی دستہ کو شہر میں اِس کام پر مقرر کرے کہ وہ برائیوں اور بدمعاشیوں کو روکیں لیکن وہ سپاہی اِس خدمت کواَنجام نہ دیں بلکہ خود بھی وہ سب جرائم اور بد معاشیاں کرنے لگیں جن کی روک تھام کے لیے بادشاہ نے اِن کی ڈیوٹی لگائی تھی تو ظاہر ہے کہ یہ مجرم اِنعام یا نوکری پانے کے مستحق تو کیا ہوتے، سخت سزا کے قابل ہوںگے بلکہ اگر اُن کو دُوسروں مجرموں اور بدمعاشوں سے زیادہ سزادی جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ افسوس ! اِس وقت اِسلامی اُمت کا حال یہی ہے کہ دین کی خدمت و دعوت اور دُنیا کی اِصلاح و ہدایت کا کیا ذکر، خود اُن میں دس پانچ فیصدی سے زیادہ ایسے نہیں رہے ہیں جو صحیح معنی میں